اسلام آباد(این این آئی، جنگ نیوز) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت نے پرویز مشرف وطن واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں لی، خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو آزاد آدمی قرار دیا تھا،مجھے معلوم نہیں تھا کہ پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں، عدالت نے کہا کہ تو سابق صدر کو انٹر پول کے ذریعے واپس لائیں گے، ہماری تو سپریم کورٹ میں پٹیشن یہی تھی کہ سابق صدر باہر گئے تو واپس نہیں آئیں گے، پیپلز پارٹی کو اتنا دکھ ہے تو مقدمے میں فریق بن جاتی، خورشید شاہ کی حکومت نے سابق صدر کے معاملے پر کون سا تیر مارا تھا، تحریک انصاف کے وکیل حامدخان تو کیس میں عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے، ہمیں پرویز مشرف کی قسمت سے کوئی لینا دینا نہیں، آج تک کسی چیف مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر نے وہ دن نہیں دیکھے جس کاسامنا مشرف کو کرناپڑا، اپوزیشن کوسپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں تو اس مسئلے کوسیاسی کیوں بنایا جارہا ہے، پیپلز پارٹی ہمیں نہیں تو اپنے ورکروں اورپارٹی کو جواب دیں کہ انہوں نے آئین شکن مشرف کے ساتھ این آراو کیوں کیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض کے جواب اور قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہاکہ یہاں تاثر دیاجارہا ہے کہ مشرف کے جانے سے ایک بہت بڑاگناہ عظیم ہوچکا ہے اور وہ لوگ انتہائی پاک صاف ہیں لفاظی میں نہیں جانا چاہتا اس سے ایوان کاتقدس پامال ہوتا ہے قائدحزب اختلاف نے جوکچھ کہا میرا فوکس صرف دو فقروں تک ہے ایک کوگواہ بنایا گیا اور دوسرا یہ کہ ہم کمزورتھے میں نے2011ء میں اس ایوان میں جو تقریر کی تھی اس کے اقتصابات ایوان میں پیش کروں گا میں نے کہاتھا کہ مشرف کیخلاف حکومت کارروائی کرے تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہونگے پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی یہ صرف یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑاسکتے کہ ہم کمزورتھے انہوں نے کہاکہ حکومت نے مشرف کانام ای سی ایل سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نکالا اس پر پیپلزپارٹی کے ارکان نے’’ جھوٹ جھوٹ‘‘ کی آوازیں بلند کیں وزیرداخلہ نے کہاکہ کیاپیپلزپارٹی والوں کے منہ سے مشرف کیخلاف ایک لفظ بھی نکلاتھا جب زخم تازہ تھے 2007ء میں اپوزیشن نے فیصلہ کیاکہ اب ہم نے اس اسمبلی میں نہیں جانا جس دور میں جمہوریت کش واقعہ ہوا ہے پوری اپوزیشن نے استعفے دیئے مگر یہ کنارے پرکھڑے ہوکر تالیاں بجاتے رہے انہوں نے کہاکہ جب جنرل مشرف کانام بینظیربھٹو قتل کیس میں گیاتھا تو آپ ہمیں نہیں اپنے ورکروں اورپارٹی کو جواب دیں کہ آپ نے اس آئین شکن کے ساتھ این آر او کیوں کیاتھا؟ انہوں نے کہاکہ اس اپیل میں تحریک انصاف بھی پارٹی تھی حامدخان نے بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی تھی سپریم کورٹ میں تین مرتبہ حامد خان کانام پکارا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے آج پیپلزپارٹی کس منہ سے مشرف پر تنقیدکرتی ہے مشرف کیخلاف کیس میں پارٹی کیوں نہیں ہے؟ملک میں اس سے پہلے بھی تین مرتبہ مارشل لاء مگرمو جو دہ حکومت نے اس حکومت کو توفیق دی کہ آرٹیکل 6 کا کیس دائر کیابینظیربھٹو کیس کی ایف آئی آر ہمارے دور میں عوامی فیصلے کے مطابق درج ہوئی 30 مارچ2014ء کو ٹرائل کورٹ کافیصلہ آیا پھر ہائی کورٹ کافیصلہ آیا اس کیخلاف بھی حکومت نے اپیل کی اور سپریم کورٹ میں گئے حامدخان نے بھی اپیل کی ہم نے آخری حد تک اس کیس کولڑا اور حامدخان پیش ہی نہیں ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر اپوزیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں تو اس کو سیاسی فیصلہ کیوں بنایاجارہا ہے؟ جب سپریم کورٹ کافیصلہ آیا تو جنرل مشرف کی سیٹ کراچی سے ایمریٹس ایئرلائنز پربک تھی ان کے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے تھے مگر ایف آئی اے نے ان کو مطلع کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالے بغیرمشرف ملک سے باہرنہیں جاسکتے پھر دوسرے دن ان کے وکلاء نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اورای سی ایل سے نام نکالا گیا اگر پرویزمشرف ملک میں واپس نہ آئے تو انٹرپول کے ذریعے انہیں واپس وطن لایاجائیگا انہوں نے کہاکہ آج تک کسی چیف نے وہ دن نہیں دیکھے جس کا سامنا مشرف کو کرنا پڑا وہ عدالتوں میں پیش ہوئے ان کیخلاف آرٹیکل6 کا مقدمہ بنایا گیا۔قبل ازیں میڈیا سے گفتگو میں چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ پرویز مشرف کی واپسی کے حوالے سے حکومت کو کوئی ضمانت نہیں دی گئی ۔ ہماری پٹیشن یہی تھی کہ پرویز مشرف کو باہر جانے دیا گیا تو واپس نہیں آئے گا۔قبل ازیں پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف کے پاکستان واپس آنےکی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، حکومت کی سپریم کورٹ میں یہی پٹیشن تھی کہ اگر انہیں جانے دیا گیا تو واپس نہیں آئیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ انہیں مشرف کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق کوئی خبر نہیں تھی، نہ اس بارے میں اسلام آباد پولیس نے بتایا ،نہ ہی یہ وزارت داخلہ کا کام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایان علی کا نام حکومت نے نہیں کسٹم انٹیلی جنس نے ای سی ایل میں ڈالوایا۔