• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کروانے کی مہم کیوں نہیں؟

آج اتوار ہے۔ آپ بچوں کے پاس بیٹھے ہوں گے۔ انہیں بھی یقیناََ حالات نے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ میری ایک آرزو ہے۔ میں بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں ۔پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوںسے پوچھ رہا ہوں۔ آپ بھی ان سے بات کیجئے کہ اگر 14اگست کے مبارک دن پر پارلیمنٹ کے باہر پاکستان کے پرچم ستارہ و ہلال کے سائے میں صدر مملکت عارف علوی ۔ وزیرا عظم عمران خان۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف۔ پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری۔ ایم کیو ایم۔ جمعیت علمائے اسلام۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ سب اکٹھے کھڑے ہوکر قومی ترانہ باآواز بلند پڑھ رہے ہوں تو ان بچوں کو کیسا لگے گا۔ ان تک اور دنیا تک کیسا پیغام پہنچے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان دوسرے معزز جج حضرات و خواتین۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود ہوں۔ 14اگست اتحاد کی لازوال علامت بن جائے گی۔ اپنی آئندہ نسلوں کے تحفظ کی خاطر۔ بلوچستان کی بقا ۔ سندھ کے دوام۔ پنجاب کی پائندگی۔ کے پی کی سر بلندی گلگت بلتستان کی خوش بختی کے لیے ان تمام کی اسمبلیوں کے باہر بھی اسی طرح کے اجتماعات ہوں۔ کیا ایک دن کے لیے چند لمحوں کے لیے اور ملک کی سلامتی کے لیے اپنے تمام اختلافات کو بھلایا جانا ممکن نہیں ہے۔

اس وقت اتحاد اور یکجہتی ہماری اولین ضرورت ہے۔ 72سال پرانے زخم تازہ کرنے والے بیانات بہت ہی افسوس ناک ہیں۔ میں تو 1947میں دیکھ رہا ہوں پیر الٰہی بخش۔ پیر حسام الدین راشدی۔ قاضی عبدالمجید عابد۔ قاضی محمد اکبر۔ میر آف خیرپور۔ جی ایم سید۔ محمود ہارون سب کھوکھرا پار سے آنے والوں کو سینے سے لگارہے ہیں۔ اپنے گھروں میں دلوں میں جگہ دے رہے ہیں۔ بھاگ کر آنے والوں کی خاطر تواضع کون کرتا ہے۔ ذرا سوچئے۔ اپنے اس ایثار اور جذبۂ انصار کو اب کیوں سپرد خاک کیا جارہا ہے۔ ان کو متحد ہونے پر اکسایا جارہا ہے۔ جو 22اگست سے منتشر ہوگئے تھے۔ عدم تحفظ کا احساس شدید کرکے انہیں پھر الگ صوبے کے مطالبے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ کیا شاہ لطیف کا یہی درس ہے۔ کیا شہباز قلندر کی میراث یہی ہے۔

نریندر مودی کے امن عالم تباہ کرنے کے اقدام کے بعد جنوبی ایشیا میں پھر کشیدگی ہے۔ جنگ کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ بھارت کے سفیر کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اپنے سفیر کو دلّی جانے سے روک دیا گیا ہے۔ ایسی آندھیاں پہلے بھی چلی ہیں۔ ایسے زلزلے پہلے بھی آئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کبھی امن کو تسلسل نہیں ملا ہے۔ دلّی اور اسلام آباد میں تو پہلے بھی ناگوار۔ اور خوشگوار حالات رہے ہیں۔ مگر مقبوضہ کشمیر میں تو نسل در نسل قربانیوں کا سلسلہ جاری ہی رہا ہے۔ ان کے لیے تو بہار کبھی نہیں آئی۔کبھی پھول کھلے ہیں نہ بچھڑے ہوئے ملے ہیں۔ اب وہاں جو قیامتیں گزر رہی ہیں۔ اس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔ میرے ذہن میں برسوں سے ایک راستہ ہے۔ معلوم نہیں وہ قابل عمل ہے یا نہیں۔ امور خارجہ کے ماہرین بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی اپنے آپ کو ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہونے کی قرار داد پاس کرکے آزادی کا اعلان کردے ۔ پاکستان کی حکومت اسے فوراً تسلیم کرلے اور دوست ممالک سے اسے تسلیم کروانے کی سفارتی مہم شروع کردے تو کیسا رہے۔

میں نے یہ سوال دسمبر1972میں پی پی پی کی حکومت کے ایک سال پورے ہونے پر ’اخبار جہاں‘ کے لیے صدر ذوالفقار علی بھٹو سے انٹرویو میں بھی کیا تھا: میرا سوال یہ تھا کہ ’’ مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے اور سفارتی سطح پرسرگرمی کے لیے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو ایک خود مختار حکومت کے طور پر تسلیم کروانے کی مہم شروع کی جائے۔‘‘بھٹو صاحب نے کافی طویل جواب دیا تھا۔ جو میرے انٹرویو پر مشتمل کتاب ’روبرو‘ میں شامل ہے۔ مختصراً ان کا کہنا تھا کہ اس کا ہر حکومت نے جائزہ لیا ہے۔ لیکن بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ بات اس کے حق میں نہیں جائے گی۔ لیکن انہوں نے یہ قطعی طور پر کہا تھا کہ کشمیریوں کو جب بھی رائے دہی کا حق ملا تو وہ بھارت کے لیے ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے لیے ہم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر بھی وہ ہمارے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمارا پرچم بلند کرتے ہیں۔

اب 47سال بعد جب نریندرمودی نے آرٹیکل 370ختم کرکے اسے متنازع علاقہ نہیں رہنے دیا تو جو علاقہ ہم آزاد کرواچکے ہیں ۔ جہاں اپنا صدر ہے۔ اپنا وزیر اعظم۔ اپنی عدالت عالیہ۔ اپنی اسمبلی ہر اعتبار سے وہ خود مختار ہے۔ تو اس کا اعلان آزادی ایک طرف بھارت میں کھلبلی مچا سکتا ہے۔ دوسری طرف عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرسکتا ہے۔ پاکستان وہاں اپنا سفارت خانہ قائم کرے۔ کشمیر کمیٹی۔ اور وزارت امور کشمیر ختم کردی جائے۔ آزاد جموں و کشمیر کا اپنا وزیر خارجہ ہو۔ چین یقیناََ اس حکومت کو تسلیم کرے گا۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت اقوام متحدہ میں رُکنیت کی درخواست دے۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم اسے اپنا رکن بنائے۔ مسلمان ملکوں پر زور دیا جائے کہ وہ آزاد جموں وکشمیر کی حکومت کو تسلیم کریں۔ سری لنکا اسے تسلیم کرنے پر مائل ہوسکتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے لیے سیٹیں خالی رکھی جائیں۔

مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سے سیاسی۔ سفارتی طور پر دنیا بھر میں ایک نئی لہر پیدا ہوسکتی ہے اور کشمیر میں تحریک آزادی کو تقویت مل سکتی ہے۔’’ تری جنت میں آئیں گے اک دن‘‘ کی تمنّا بھی پوری ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین