کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام’’ نیا پاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگوکرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا خواہاں ہے،بھارت فرار اختیار کررہا ہے،مسئلہ کشمیر پر اختلاف نہیں ،دنیا کو ایک متحد پاکستان کا چہرہ دکھانا ہے،سنیئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اپوزیشن کے لوگ کشمیر کی جس طرح حمایت کررہے تھے وہ دودھ میں مینگنی ڈالنے کے متراد ف تھا جس کا مجھے افسوس ہے،سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی کاکہنا تھا کہ ہماری سیاست نہ جانے کدھر جارہی ہے ہم اپنے آپسی جھگڑوں سے ہی نہیں نکل پارہے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میرا دورہ چین بروقت تھا وہاں ڈھائی گھنٹے کی ہم منصب سے ملاقات کامیاب تھی ، سیکورٹی کونسل میں جانے کا فیصلہ ہماری کابینہ کا تھا جس کی مکمل تائید چائنا کی طرف سے بھی ہمیں ملی ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ میں نے چین کو یہ بھی واضح کیا کہ یہ مسئلہ پہلے سے سیکورٹی کونسل کے ایجنڈے میں موجود ہے اور اس وقت جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے خطے کا استحکام متاثر ہوسکتا ہے او ران کی بنیادی ذمہ داری ہے امن اور سلامتی جس پر چائنا نے ہماری مکمل تائید کی ۔ اس سے قبل پروگرام کے آغاز میں میزبان شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاوا پک رہا ہے ، مواصلاتی نظام معطل ہے ، لوگوں کو سڑکوں پر آنے میں دشواری کا سامنا ہے ،برطانوی نشریاتی ادارےکی رپورٹ میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جس روز یہ رکاوٹیں ختم کی گئیں سوچیں اس روز کیا ہوگا ۔ مقبوضہ کشمیر میں جس روز کرفیو ہٹا اور لوگو ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد کیا ہوگا یہ ہے وہ سوال جس پر دنیا کی نظریں ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان بھی دنیا کی توجہ اسی جانب لانے کی کوشش کرچکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ دنیا کو اہل کشمیریوں کی بدترین نسل کشی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا اور دیکھنا یہ ہوگا کہ دنیا کا رد عمل کیا ہوگا کیا وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا راستہ روکے گی ۔شاہ محمود قریشی کا اپنی گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ چائنا کو لداخ کے حوالے سے اعتراضات ہیں تاہم سیکورٹی کونسل جانے کا فیصلہ پاکستان کا ہے اور چائنا کہتا ہے کہ پاکستان اور چائنا کا رشتہ اس نوعیت کا ہے کہ چائنا مکمل طو رپر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بقول بھارتی میڈیا حالات معمول کے مطابق ہیں تو پھربھارتی ٹی وی ٹیم کو مقبوضہ کشمیر میں جانے سے کیوں روکا گیا ۔اس وقت حقیقی معنوں میں دنیا کو کشمیر کے مسئلے کو لے کر تشویش ہے خود پورا یورپ اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے کہ کہیں خون خرابہ نہ شروع ہوجائے ۔نیویارک میں بھارتی سفارتخانے کے سامنے لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور احتجاج کرنے والے صرف پاکستانی ہی نہیں تھے دیگر مختلف ممالک کے لوگ بھی تھے ۔ روس کے جاری بیان پر ان کا کہناتھا کہ روس کی اس ایشو پر پرانی پوزیشن رہی ہے جو سالہا سال سے ہے روس نے اپنے بیان میں مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور دونوں طرف سے حل کرنے کا کہا ہے اور پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ پاکستان خود پرامن حل کا خواہاں ہے مگر اس سے فرار تو بھارت اختیار کررہا ہے ۔ہم تو حق اور سچ کی لڑائی لڑرہے ہیں جس میں ہم نے کشمیریوں کی سیاسی ، قانونی اور مورل سپورٹ کرنی ہے ۔