• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پڑھتا جا شرماتا جا! آج کل تو یہی کچھ ہورہا ہے کہ کسی بزرگ کو بھی پڑھتے ہوئے شرمساری کی حد نظر تک پھیلے ہوئے گدلے پانیوں کے جوہڑوں میں ڈوبنے کا احساس ہوتا ہے۔ ویسے تو اسداللہ خاں غالب بھی شرمندہ کرنے میں کچھ کم نہیں ہیں لیکن بلھے شاہ کو تو پڑھنا کافی اذیت ناک ہے۔ ادھر کچھ دنوں سے ان کی یہ کافی کچوکے لے رہی ہے جس کی استھائی ’’منہ آئی بات نہ رہندی ‘‘ ہے۔ جب ان کا یہ شعر بھی پڑھنا پڑتا ہے کہ ’’سچ آکھاں تاں بھانبڑ بلدا ہے‘‘ اور ’’جھوٹ آکھاں تے کجھ بچدا ہے‘‘ تو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس دنیا میں رہتے تھے جہاں وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’بچاؤ‘ جھوٹ بولنے میں ہے ایسا ایسا سچ بول جاتے تھے جس کی آج بھی کوئی تاب نہیں لا سکتا۔ اس لئے ہم ان سے شرمندہ ہی ہو سکتے ہیں۔

یہ احساس اس دن سے عذابِ جان بنا ہوا ہے جس دن ایک عالمی ادارے نے پاکستان کو معاہدہ خلافی کی بنا پر 6بلین ڈالر کا جرمانہ کیا تھا۔ شاید مجھے 6بلین ڈالر کا ہندسہ اس لئے کھٹکا کہ اس سے پہلے پاکستانی حکومت نے بہت ہی ’ترلے منتیں‘ کر کے اتنی رقم ادھار لی تھی۔ اس رقم کو لینے کے لئے وہ شرائط بھی تسلیم کی تھیں جن سے عوام مہنگائی کے طوفان کی زد میں ہیں اور ظاہر بات ہے کہ کسی بھی حکومت کے لئے یہ کرنا زہر نگلنے کے برابر ہوتا ہے۔ پس کہ 6بلین ڈالر بہت بڑی رقم تھی جس کے لئے اتنے پاپڑ بیلے گئے اور عوام کی نیندیں حرام کی گئیں لیکن صاحب! اگر جرمانے کے 6بلین ڈالر بھی اتنی ہی بڑی رقم ہے تو اس کے بارے میں چاروں طرف خاموشی کیوں ہے؟ کیا یہ رقم پاکستان کے عوام کے بجائے کسی غیبی قوت کو ادا کرنا ہے؟

اس کے اُلٹ سیاسی بد عنوانیوں پر بولنے پر کئی درجن ٹی وی اینکرز تمغے لے چکے ہیں لیکن وہ اس موضوع پر خاموش کیوں ہیں؟ یہ بات بھی دعویٰ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کسی عالمی حساب دان سے پوچھ لیجئے پاکستان کی سیاسی بد عنوانیاں 6بلین ڈالر کے ہندسے تک پہنچ نہیں پائیں گی۔ یہ دعویٰ بھی مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ شاید تین چوتھائی سیاستدانوں کی کل مالی حیثیت 6بلین ڈالر تک نہ پہنچ پائے تو پھر ہو کیا رہا ہے؟ اس پر بھی شاید بلھے شاہ کا جواب سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ایک دوہڑے میں فرماتے ہیں:

بلھیا! واری جائیے اوہناں توں مارن گپ شڑپ

کوڈی لبھی دین چا، بغچہ گھاؤ گھپ

(بلھا! ان گپیں ہانکنے والوں کے بھی قربان جائیں جو معمولی کوڈی (دمڑی، سب سے چھوٹا سکہ) تو فوراً واپس کر دیتے ہیں لیکن اگر مال سے بھرپور گٹھڑی مل جائے تو اسے غائب کر دیتے ہیں)۔

اس معاملے میں بلھے شاہ کا بتایا ہوا منافقانہ طرز عمل ہی جاری ہے کہ چھوٹی موٹی فیکٹریوں میں کی گئی بد عنوانیوں کے قصے تو اچھالے جا ر ہے ہیں لیکن 6بلین ڈالر کے جرمانے کے موضوع پر (ایک آدھ کو چھوڑ کر) کوئی بھی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھ بلین ڈالر کا ٹیکہ لگوانے کا قصہ تحقیق کے بعد عوام کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ سب سے پہلے تو دیکھئے کہ میڈیا میں ریکوڈک کے بارے میں خبر کس جید صحافی نے چھوڑی اور پھر اس پر عدالت کی مداخلت تک اس کار نیک کے لئے جہاد کرتے رہے۔ پھر اُس پر ایک نام نہاد سائنسدان بھی گواہی لے کر آگئے کہ ریکو ڈک میں کھربوں ڈالر کی معدنیات موجود ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ متذکرہ صحافی کو بلوچستان کے ریکوڈک کے معدنی ذخائر کے معاہدے اور اس سے متعلقہ فرضی داستان کسی نہ کسی نے کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت فراہم کی ہو گی اور پھر اپنے بااعتماد سائنسدان سے گواہی بھی دلائی ہو گی۔

اس معاہدے کے قانونی پہلو کے بارے میں ایک نو آموختہ عالمی قوانین کے ماہر نے بہت پہلے ہی ہمیں یہ بتا دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی حالت میں یہ مقدمہ جیت نہیں سکتا کیونکہ معاہدے کے مطابق فریقین میں اختلافات کو مصالحتی پینل میں تو لے جایا جا سکتا ہے عدالت میں نہیں! چلیئے عالمی قانون سے نا واقفیت سے در گزر کرتے ہوئے یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ ملک کو کھربوں ڈالر کے تصوراتی نقصان سے بچانے کے لئے غلطی سے معاہدہ منسوخ کیا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ اسے کھربوں ڈالر کا نقصان دکھایا کس نے اور اس کے بارے میں جھوٹی گواہیاں کس نے اور کیوں دیں؟ کیا اس وقت بنیادی مقصد محض حکومت وقت کو غیر مستحکم کرنا تھا؟۔

فیصلہ کرتے ہوئے مصالحتی پینل نے یہی دلیل دی کہ جب پاکستانی ماہرین خود اس کی حیثیت کھربوں ڈالر بتا رہے ہیں تو 6بلین ڈالر کا جرمانہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اب تو یہ سب کو معلوم ہے کہ ریکو ڈک کی اتنی قدرو قیمت تھی ہی نہیں اور بلوچستان حکومت کا کیا ہوا معاہدہ بہترین تھا لیکن کیا شوشہ چھوڑنے (چھڑوانے) والے اور جھوٹے گواہ اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو مواخذہ کے لئے پیش کریں گے؟ کیا میڈیا کے لوگ اپنے بھائی بندوں کا مواخذہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے؟ بد قسمتی سے ہمارا اندازہ ہے کہ وہ ’کوڈی‘ کے بارے میں واویلا مچاتے رہیں گے اور ’بغچے گھاؤں گھپ‘ کرتے رہیں گے۔

ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں بابا گورو نانک نے کہا تھا: ’’شرم دھرم دوئے چپ کھلوتے جھوٹ پھرے پردھان وے لالو‘‘ (شرم اور مذہب خاموش تماشائی بن گئے ہیں اور جھوٹ پردھان بنا پھر رہا ہے‘‘۔ اور ’’خون کے سوہلے گاوئیے نانک رت کا کنگو پائے وے لالو‘‘ (اس پر شادی کے لہو لہو گیت گائیے اور خون سے ہی سنگھار کیجئے)۔

تازہ ترین