• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


کہئے۔ کیسی گزری عید قرباں۔ اور لاکھوں قربانیوں سے حاصل ہونے والی آزادی کا دن، 14اگست اب کے آپ نے اپنی گزاری کہ مظلوم کشمیریوں کے نام کر دیا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچم گھروں پر لہرا رہے تھے۔ ہاتھوں میں تھے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ 72سال کی آزادی اور خود مختاری کے بعد پاکستان کو جہاں ہونا چاہئے تھا، وہاں ہے یا نہیں۔ نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے۔ اور کتنا پیچھے ہے۔ اس کا ذمہ دار صرف حاکم وقت نہیں ہے۔ وہ سب ہیں جو تاج و تخت کے مزے لوٹتے رہے۔ جو خود امیر سے امیر تر ہو گئے، وطن کو غریب تر کر گئے۔ جن کے اپنے بنگلے دوچند سہ چند ہوتے رہے لیکن ملک پہلے سے چھوٹا ہوگیا۔ ہم نے 72سال میں یہ بھی ثابت کیا کہ شہ رگ کے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا پہلا دارالحکومت بانی پاکستانی کی جائے پیدائش اور جائے تدفین میں چار پانچ دن جمہوری حکومتیں، آمرانہ حکومتیں، سیاسی قیادتیں، فوجی قیادتیں، سڑکوں پر، نالوں میں بہتی رہیں۔ پلیاں، گلیاں، کچی پکی آبادیاں ہائے حکمرانی وائے حکمرانی پکارتی رہیں۔ گندے پانی میں ڈوبتے گٹر، تیرتے برتن، لڑھکتے صندوق سندھ حکومت، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن، وفاقی حکومت کا ماتم کرتے رہے۔ اکیسویں صدی میں جب بارشیں آفت ناگہانی نہیں رہیں۔ ایک سال پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کتنی شدت کی بارش ہوگی۔ نالے صاف کرنے کی، سڑکیں پل بنانےکی، پانی محفوظ کرنے کی بھاری مشینری آچکی ہے۔ انجینئرنگ عمدگی کی انتہائیں چھو رہی ہے۔ اس وقت بھی اگر انسانوں کی حفاظت نہیں کی جا سکتی تو ان منتخب یا نامنتخب حکمرانوں کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ مگر ہمارے ووٹرز، سیاسی پارٹیوں کے کارکن سب غلام ہیں۔ اپنے آقائوں ہی کو حکمرانی کا حقدار سمجھتے ہیں۔ وہی آقا جو اپنے گھر بلندیوں پر بناتے ہیں۔ خود محفوظ رہتے ہیں۔ اپنے ووٹرز کو غیر محفوظ۔ وقت باربار انہیں نااہل، بددیانت، بدنیت ثابت کرتا ہے۔ مگر ہم انہیں ہی اپنے ووٹ کا مستحق سمجھتے ہیں۔

نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی رائے عامہ کو ہندوتوا کے بلڈوزر سے کچل دیا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک کروڑ سے زیادہ انسان گھروں میں محصور ہیں۔ اپنی مذہبی عبادات کر سکتے ہیں نہ زندگی کے معمولات ادا کر سکتے ہیں۔ اور دنیا وہی رٹے رٹائے جملے بول رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کشیدگی سے دور رہیں۔ پاکستان تو اچھا برا کچھ بھی نہیں کہ جو برا اور بہت برا کر رہا ہے وہ بھارت کر رہا ہے۔ اس کے خلاف کسی کارروائی کا تو کوئی ذکر نہیں۔ اس کی مذمت بھی آج کی جمہوری دنیا سے نہیں کی جا رہی۔

میں نے تجویز پیش کی کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت‘ خود مختاری، آزادی کا اعلان کرے۔ اس کا اپنا پرچم ہے۔ اپنا صدر۔ اپنا وزیراعظم۔ اپنی عدلیہ۔ اپنا الیکشن کمیشن۔ اپنی اسمبلی۔ جس میں بعد میں آزاد ہونے والے دوسرے حصوں کے لئے سیٹیں بھی خالی چھوڑی ہوئی ہیں۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر نے بھی پاکستانی کشمیر کے لئے 24سیٹیں خالی رکھی ہوئی ہیں۔ ہم بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے کشمیریوں کو کرنا ہے۔ اس تجویز کو پاکستان، بیرونِ پاکستان اور آزاد کشمیر کے سنجیدہ، بلند حوصلہ اور بالغ نظر خواتین و حضرات نے سراہا ہے کہ مودی کے آئین میں تبدیلی کے بہیمانہ اقدام کا سیاسی، سفارتی اور سماجی جو اب یہی ہو سکتا ہے۔ اس پر اعتراض صرف یہ ہوا کہ اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہوگی۔ وہی قراردادیں جن کی لاشیں 72سال سے اقوام متحدہ کے سرد خانے میں پڑی ہیں۔ ان کی شناخت کے لئے بھی کوئی نہیں آیا۔ ادھر کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں آتا۔ جب لاشیں نہ گرتی ہوں ہم پر بھی ان بے جان قراردادوں کے مجاور بنے ہوئے ہیں۔ اقبالؔ کہہ گئے تھے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اقوام متحدہ بے بس ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے لئے تو وہ حرکت میں آتی ہی نہیں ہے۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کوسوو کے معاملے میں فیصلہ دیتے وقت کہہ چکی ہے ’’کوئی بین الاقوامی قانون آزادی کے یکطرفہ اعلان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ اگرچہ جس مملکت سے علیحدگی اختیار کی جا رہی ہوگی وہ اسے بغاوت تصور کرے گی۔ پھر معاملہ جنگ آزادی کی طرف جائے گا یا اس بحران کا آئینی حل تلاش کیا جائے گا‘‘۔

ہمارے سامنے سب سے حالیہ مثال مشرقی تیمور کی ہے۔ جس نے یکطرفہ اعلان آزادی کیا اور 20مئی 2002ء کو آزاد مملکت کی حیثیت پائی۔ اسے 1999ء میں آزادی کیلئے ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔ یہاں بھی انڈونیشیا کی فوج موجود تھی۔ اس سے پہلے بوسنیا، کوسوا کی مثالیں ہیں۔

کشمیر کے لئے ہم تین لڑائیاں بھی لڑ چکے۔ اقوام متحدہ میں بھی کئی بار آوازیں بلند کر چکے۔ یہ راستہ کبھی نہیں اختیار کیا گیا۔ حالانکہ کشمیر میں ہر روز ہی آواز بلند ہوتی ہے۔ کیا چاہئے آزادی۔ مقبوضہ کشمیر میں تو حکومت ہمیشہ بھارت کی کٹھ پتلی ہوتی ہے۔ وہ تو اعلان آزادی نہیں کر سکتی۔ آزادجموں و کشمیر کی حکومت کے اعلان آزادی سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی تیز ہو جائے گی۔ اس کی لائن آف کنٹرول ایک آزاد ملک کی سرحد ہوگی۔ اس وقت تک کے لئے جب تک پورا کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا انڈیا یقیناً جارحیت کرے گا مگر ایک متنازع علاقے کے خلاف نہیں۔ ایک خودمختار اور آزاد ملک کے خلاف۔ اس پر بہت سی قومیں اس کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اس سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کا بھی حوصلہ ہو جائے۔ وہ بھی ایسا اعلان کرنے کا سوچے۔ آزاد کشمیر اپنی فوج بنا سکتا ہے۔ اس کو صرف مشرقی سرحد کا دفاع کرنا ہوگا۔ ادھر تو پاکستان کی سرحد ہوگی۔ جو اسے تسلیم کر چکا ہوگا۔ اس کے ساتھ سیاسی، دفاعی، سفارتی طور پر کھڑا ہوگا۔ کشمیر کے آزاد اور خودمختار مملکت ہونے سے ہم کیوں ڈرتے ہیں۔ اس طرح تو دنیا میں ایک اور مسلم مملکت کا اضافہ ہو جائے گا۔

تازہ ترین