• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین تجارتی جنگ کے بدترین اثرات کم کرنے کے لیے اپنی کرنسی استعمال کررہا ہے

بیجنگ : ٹام مچل

2016 کے آخر میں ،اگر رینمبنی کی قدر میں سات درجے کمی ہوجاتی یا چینی زبان میں معروف تیزی میں ڈالر سے سات درجے کم ہورہی ہے،تو یہ ایک اشارہ ہوتا کہ چین محتاط طریقے سے سنبھالی ہوئی کرنسی پر اور ممکنہ طور پر دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت پر بھی اپنی گرفت کھورہا ہے۔تاہم تقریباََ تین سال کے لیے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد پیر کی صبح بالآخر جب یہ حد پار کی توبیجنگ میں سب پرسکون تھا۔

یہ اتفاق نہیں تھا کہ یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ ماہ تمام چینی درآمدات پر انتقامی ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کے دوسرے روز سامنے آیا۔ چینی حکومت کی جانب سے رینمینبی کی قدر میں سات پوائنٹس کمی ایک محتاط حساب کتاب والا ایک کھیلا گیا داؤ ہے جو کہ وہ سرمائے کی پرواز کو متحرک کئے بغیر امریکا کے ساتھ جاری اس کی تجارتی جنگ کے بدترین اثرات کی اصلاح کے لئے کرنسی کو استعمال کرسکتا ہے۔

2016 کے اختتام اور آج کے درمیان اہم فرق یہ ہے کہ مارکیٹ اور کرنسی کے بحران کے طویل دور کے بعد تین سال قبل چین ریمنبنی پر ملکی اور بین الاقوامی اعتماد بڑھانے کے لئے جدوجہد کررہا تھا۔

تاہم یہ اتنا ہی خراب تھا جتنا ہنگامہ برپا تھا،2016 کے آخر میں سرمائے پر سخت کنٹرول ، سرمائے کے بہاؤ کو روکنے، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 3 ٹریلن ڈالر سے اوپر برقرار رکھنے نے کام کیا۔اس کی سب سے اہم غیرملکی مارکیٹ ہانگ کانگ کے ساتھ ساتھ ملکی مارکیٹ میں رینمینبی کی قدر کی رہنمائی کے لئے چین کے مرکزی بینک نے بھی اپنی اہلیت ، سرکاری مالیاتی اداروں کے ساتھ قریبی تعلق سے اعتماد حاصل کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جنگ پنگ کے درمیان تجارتی ٹکراؤ نے بیجنگ کی کرنسی کو منظم کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

امریکی صدر نے سب سے پہلے 2018 کے وسط میں امریکا کے اصولی جغرافیائی سیاسی حریف کے ساتھ ایک غیرمعمولی تجارتی جنگ کو جاری اور بڑھانے کے عزم کا مظاہرہ کیا ، تو رینمینبی آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر ڈالر کے مقابلے میں 4.6 سے کم ہوکر اس سال 97.6 کی کم سطح پر آگیا۔

اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی ٹیرف کا کچھ ڈنک نکل گیا۔تاہم چین نے اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا تھا کہ امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدے کو نقصان پہنچنے کے امکانات کے خوف سے کرنسی کی قدر سات درجے سےنیچے نہیں جانے دی۔

اس رویہ کو رواں سال بھی اپنایا گیا ہے۔ایک ایسے وقت جب دونوں ممالک کسی معاہدے کے قریب پہنچتے دکھائی دے رہے تھے، بیجنگ نے ڈالر کے مقابلے میں رینمینبی کی مستحکم شرح تبادلہ کی جانب رہنمائی کی۔اس کے باوجود جب واپس پہلی حالت میں آتا تھا،جیسا کہ مئی میں سب سے زیادہ ڈرامائی انداز میں ہوا،یہ دوبارہ سات درجے قدر میں کمی کے ساتھ کمزور ہوگیا۔

سات درجے قدر میں کمی کا اقدام اس بات کی علامت ہے کہ چین کو اب امریکا کے ساتھ جلد کسی تجارتی معاہدے تک پہنچنے کی بہت کم امید نظر آرہی ہے۔یہ امریکی صدر کے لیے بھی یاددہانی ہے کہ جب پریشان کن اوقات میں چین کی سرکاری سرپرستی میں فروغ پاتی معیشت کو سنبھالنے کی بات آتی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں شی جنگ پنگ کے پاس اسے بحران سے نکالنے کے لئے کہیں زیادہ لیورز ہیں۔

تازہ ترین