• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کے چنار دنیا کے وہ واحد درخت ہیں جو بہتّربرس سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، لیکن ہر طرح کی آزادیوں کی حمایت کرنے والے نام نہاد جمہوری ممالک اور ادارے یہ آگ بجھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے۔


مسئلۂ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا تنازع ہے جس کے بارے میں اس ادارے میں خود بھارت کے آں جہانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے استصواب رائے کی بات کی تھی اور جس کے بارے میں یہ ادارہ متعدد بار قراردادیں منظور کر چکا ہے۔ تاہم لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے اور ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے باوجود کشمیریوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کاحق نہیں ملا۔ حالاں کہ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کا خطہ اپنی تاریخ کے بیش تر ادوار میں آزاد رہا ہے۔

ریاست جموں و کشمیرتیسری صدی قبلِ مسیح سے بیسویں صدی عیسوی تک

ریاست جموں و کشمیر تیسری صدی قبل مسیح میں موریا سلطنت، سولہ تا اٹھارہ صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت اور انیسویں صدی عیسوی کے وسط سے بیسویں صدی کے وسط تک برطانوی کالونی کا حصہ رہی۔ 1846ء تک یہ سکھوں کی سلطنت میں شامل تھی، لیکن اس برس انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر اسے جمّوں کے ایک سکھ، گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75 لاکھ روپے میں فروخت کردیا تھا۔ یہ معاہدہ امرتسر، گلاب سنگھ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا ۔ بعدمیں ریاست کے مہاراجا نے انگریزوں سے ایک اور معاہدہ کیا جس کی رُو سے انگریزوں نے خطۂ کشمیر کو خود مختار نوابی ریاست تسلیم کرکے مہاراجا کو اس کے حکم راں کا درجہ دے دیا تھا۔ گلاب سنگھ کے 1857ء میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد رنبیر سنگھ ریاست کا حکم راں بنا اور پھر پرتاب سنگھ اور ہری سنگھ نے ریاست کا اقتد ار سنبھالا۔ یہ سلسلہ 1949ء تک چلا۔ گلاب سنگھ اور اس کے بعد آنے والے مہاراجوں نے ریاست پر بہت ظالمانہ انداز میں حکومت کی۔ اس وقت بھی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 80 فی صد تھی لہٰذا اس طبقۂ آبادی نے ہری سنگھ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ لیکن 1931ء میں ہری سنگھ نے اس بڑی عوامی تحریک کو بہت بے دردی سے کچل دیا۔ 1932ء میں شیخ عبداللہ نے کشمیر کی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے بنائی جس کا نام 1939ء میں تبدیل کرکے نیشنل کانفرنس رکھ دیا گیا تھا۔

بھارت کی خفیہ دراندازی

ریاست کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مہاراجا نے 1934ء میں محدود جمہوریت کی اجازت ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی صورت میں دی ۔اس کےباوجودلوگوں میں مہاراجا کے خلاف نفرت موجود رہی۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت اس ریاست کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو الحاق کے لیے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتی ہے یا اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکتی ہے۔ تاہم اسے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ لسانی اور جغرافیائی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قریبی ملک سے الحاق کرلے۔ لیکن مہاراجا اُس وقت اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچا رہاتھا۔ پھر ریاست کے مسلمانوں نے وہاں خفیہ انداز میں بھارتی فوجی آتےدیکھے توان کے جذبات بھڑک اٹھے اور معاملات مہاراجا کے ہاتھ سے نکل گئے۔ کشمیر کے باسی پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایسے میں مہاراجا کو قبائلی جنگ سے خطرہ تھا۔ان حالات میں بھارت کو مہاراجا پر دبائو بڑھانے کا موقع ملا اور اس نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

نام نہاد معاہدہ اور استصوابِ رائے کا وعدہ

اگرچہ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ریاست کا اس کے ساتھ الحاق 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجاکے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ہوا، لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ نام نہاد معاہدہ کیسے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ریاست کو بھارت میں زبردستی شامل توکرلیا گیا تھا، لیکن اس وقت خودبھارت کی طرف سے یہ کہا گیا تھاکہ بعد میں وہ وہاں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کرائے گا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کی طرف سے مہاراجا کو خط لکھا گیا جس میں الحاق کی منظوری دیتے ہوئے مائونٹ بیٹن نے واضح کیا تھا کہ کشمیر کے عوام سے ان کی رائے پوچھنےکے بعدہی ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے گا۔ بھارت نے عیاری سے اس وقت اصولی طورپر استصواب رائے کی بات قبول کرلی تھی، لیکن بعد میں اس نے ہر موقعے پر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔

کشمیری عوام کی بغاوت اوربھارت کااقوامِ متحدہ میں جانا

بھارت کی جانب سے ریاست کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنانے کے خلاف کشمیری عوام اور قبائلی رضاکاروں نے علم بغاوت بلند کیا تو بھارتی فوج کُھل کر ان کے سامنے آگئی۔ ان حالات میں پاکستان اوربھارت کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ کے دوران یہ بھارت تھا جو پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کو لے کر یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں گیا۔ یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا اور سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔اقوام متحدہ کی جانب سے 21 اپریل 1948ء کو منظورکی جانے والی قرارداد اس مسئلے کے بارے میں اقوام متحدہ کی بنیادی قراردادکہی جاتی ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا: ’’بھارت اور پاکستان دونوں کی یہ خواہش ہے کہ ریاست کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ جمہوری طریقے سے حل کیا جائے، یعنی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ استصواب رائے کے ذریعے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے بھارت اور پاکستان کے لیے کمیشن نے بھی اپنی قرارداد میں یہ ہی موقف اختیار کیا۔ پھر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی 3اگست 1948ء اور5جنوری 1949 ء کی قراردادوں نے بھی مذکورہ کمیشن کے موقف کی توثیق کی۔

انگریزوں نے ریاست کی تباہی کی بنیاد رکھی

ریاست کشمیر کبھی بہت خوش حال اور پرامن تھی۔ اس کے بُرے دن اس وقت شروع ہوئے جب انگریزوں نے 1846ء میں اسے ایک ایسے ہندو جنگ جُو کے ہاتھوں فروخت کیا جس کی اس علاقے میں کوئی جڑیں نہیں تھیں۔ انگریزوں نے کشمیر اور اس کے عوام کو کسی جائیداد کی طرح فروخت کیا تھا جس کے لیے وہاں کے باسیوں سے ان کی رائے نہیں لی گئی تھی۔ لیکن یہ خریداری کرنےکے بعد گلاب سنگھ نے خود کو ریاست کا مہاراجا قرار دے دیا اور ظالمانہ انداز میں حکومت کرنے لگا۔ اس کے دور میں متعدد مساجد پر قبضہ کرلیا گیا اور بہت سی مساجد کو بہ زور طاقت بند کرا دیا گیا۔ گائے ذبح کرنا جرم قرار دیا گیا جس کی سزا موت تک تھی۔ بعد میں آنے والے مہاراجوں نے بھی گلاب سنگھ کی پالیسی اپنائی اور ریاست کی94فی صد آبادی، یعنی مسلمانوں کے خلاف شدید امتیازی رویہ روا رکھا گیا۔ ان حالات سے تنگ آکر 1931ء میں کشمیریوں نے پہلی مرتبہ ایک منظم مظاہرہ کیا جس نے آگے چل کر 1946ء میں ’’کشمیر سے نکل جائو‘‘ تحریک کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اگلے ہی برس اس تحریک نے’’ آزاد کشمیر تحریک ‘‘کی شکل اختیار کرلی تھی۔

اس سے قبل 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایک ایسی آزاد ریاست تشکیل دی جائے جس میں وہ تمام علاقے شامل ہوں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ پاکستان میں ’’ک‘‘ دراصل کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ پھر26جولائی 1946ء کو مسلم کانفرنس نے آزاد کشمیر کی قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس علاقے سے مطلق العنانیت ختم کی جائے اور کشمیریوں کو اپنی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرنے کا حق دیا جائے۔

کشمیری پہلی مرتبہ ہتھیار اٹھاتے ہیں

اگست 1947ء میں کشمیریوں نے پہلی مرتبہ ہتھیار اٹھائے اور مہا راجا کے سپاہیوں کو للکارا۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر مہاراجا 25اکتوبر 1947ء کو جموں بھاگ گیا کیوں کہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک روز بہ روز طاقت پکڑتی جارہی تھی۔ جموں پہنچ کر اس نے بھارت سے رابطہ کیا اور بھارتی حکومت سے یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے اس موقعے پر مہاراجا کی عسکری مدد کی تو وہ اس کے بدلے میں بھارت سے الحاق کا معاہدہ کرلے گا۔ پھر یہ نام نہاد معاہدہ ہوا۔ مگر قائداعظم نے یکم نومبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملاقات میں کہہ دیا تھا: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق جائز نہیں ہے کیوں کہ اس کی بنیاد دھوکہ دہی اور تشدد پر رکھی گئی ہے۔‘‘

جواہر لال نہرو کی 2نومبر 1947ء کی تقریر

آج بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہوئے اپنے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی2نومبر 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی تقریر کو بھول جاتا ہے۔ اس تقریر میں نہرو نے بھارتی حکومت کے اس وعدے کو دہرایا تھا جو اس نے کشمیریوں سے کیا تھا۔یعنی کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینا۔ انہوں نے کہا تھا:’’ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ حتمی طور پر کشمیر کے عوام ہی کریں گے۔ ہم نہ صرف جموں اور کشمیر بلکہ تمام دنیا سے یہ وعدہ کرچکے ہیں اور مہاراجا نے اس کی حمایت کی ہے۔ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ ہٹیں گے۔ جب امن و امان بہ حال ہوجائے تو ہم عالمی نگرانی میں، جیسے اقوام متحدہ، ریفرنڈم کرانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عوام کی جانب سے شفاف اور منصفانہ ریفرنس ہو اور ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہوگا۔‘‘ لیکن بھارت نے اس کے برعکس کیا۔ اس نے مہاراجا کے ساتھ سازش کرکے اپنی فوج ریاست میں داخل کردی جس کے بعد آزادی کے متوالوں سے بھارتی فوج کی جھڑپیں ہونے لگیں۔ حریت پسندوں نےبھارتی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرانے میں کام یاب رہے۔

اقوامِ متحدہ کا بھارت کو واضح پیغام

حریت پسندوں کی مزاحمت کی شدت کو دیکھتے ہوئے بھارت جنوری 1948ء میں یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ ریاست میں ہونے والی جدوجہد میں پاکستان سے جانےوالے رضا کار بھی شامل ہوگئے تھے جس پر بھارت نے پاکستان پر یہ الزام لگانا شروع کردیا تھا کہ پاکستان مسلح حملہ آوروں کو ریاست کشمیر بھیج رہا ہے۔ پھر دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی اور سیز فائر ہوا۔ بعد میں بھارت نے اپنے زیرِ قبضہ کشمیر میں دوسرا ڈراما شروع کردیا یعنی مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل۔ بھارت کے اس عمل کے خلاف 24 جنوری 1957ء کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اپنی 1948ء کی قرارداد میں اختیار کیے گئے موقف کا اعادہ کیا اور واضح کیا کہ بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں تشکیل دی گئی قانون سازا سمبلی کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی عمل مذکورہ قرارداد کے اصولوں کی روشنی میں ریاست کی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکے گا۔

بھارت کی ہٹ دھرمی اور حقیقت کا اعتراف

ان تمام باتوں اور وعدوں کے باوجود بھارت کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر 5 فروری 1964ء کو اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے نے سیکیورٹی کونسل میں کہا: ’’میں اپنی حکومت کی جانب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی صورت میں کشمیر میں استصواب رائے کرانے پر تیار نہیں ہوسکتے‘‘۔ بعد میں اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع کرشنن مینن نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا :’’ کشمیر پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا اور استصواب رائے کرانے پر تیار ہونے والی کوئی بھی بھارتی حکومت ٹک نہیں سکے گی۔‘‘

بھارت کا اشتعال انگیز اقدام اور جنگِ ستمبر

بھارت استصواب رائے کرانے کے وعدے سے مکرنے کے بعد اور آگے بڑھا اور مارچ 1965ء میں بھارت کی پارلیمان نے ایک بل منظور کیا جس میں کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دے دیا گیا۔ بھارت کے اس اقدام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ ایسے میں اگست 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر در اندازبھیجنےکے الزامات عاید کیے اور پھر اس کی فوج نے کشمیر میں سیز فائر لائن عبور کرلی۔ 6 ستمبر کو بھارت کی افواج نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان پر حملہ کردیا اور لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

سیز فائر اور معاہدۂ تاشقند

23ستمبر کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر سیز فائر ہوا۔ اس کے بعد سابق سوویت یونین نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور اس وقت کے سوویت یونین کے وزیراعظم ایلکس کوسیگن کی کوششوں سے معاہدۂ تاشقند ہوا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا اور دونوں ملکوں کی افواج اپنی پہلے والی پوزیشنز پر واپس چلی جائیں گی۔ 2 جولائی 1972ء کو دونوں ملکوں نے پھر ایک معاہدہ کیا جو شملہ معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود تمام تنازعات نمٹا کر پائے دار امن کے قیام کی بات کی گئی تھی ۔ اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جموں اور کشمیر کے مسئلے کا حتمی حل تلاش کیا جائے گا۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے مسئلۂ کشمیر کو مزید گمبھیر بنا دیا۔

1987ء :نئے عزم کے ساتھ مزاحمت کا آغاز

ان حالات میں کشمیری حریت پسندوں نے 1987ء میں نئے عزم کے ساتھ مزاحمت کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی ابتداء کشمیر کے حکم رانوں کی نا اہلی، بدعنوانیوں اور مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف مظاہروں سے ہوئی تھی۔ جب ان مظاہروں میں شدت آئی اوریہ بھارت کے خلاف تحریک مزاحمت میں تبدیل ہوگئے تو 19 جنوری 1990ء کو بھارتی حکومت نے کشمیر کو بہ راہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا، ریاست کا قانون ساز ادارہ معطل اورحکومت ختم کردی گئی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بھارت کی خفیہ سروس ’’را‘‘ کے سابق ڈائریکٹر جنرل جگ موہن کو ریاست کا گورنر نام زد کردیا گیا۔ لیکن اس کے اگلے ہی روز مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ بھارت کی افواج کے ہاتھوں اس روز 30کشمیری شہید کردیے گئے اور ریاست کے بیش تر شہروں میں امن وا مان کی خراب صورت حال کی وجہ سے کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ مگر حالات سدھرنے کے بجائے بگڑتے ہی چلے گئے اور 25 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے سرکاری ملازمین بھی مظاہروں میں شامل ہوگئے۔ 27فروری کو عالمی دبائو پر اقوام متحدہ کے نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہاں جانا چاہا تو بھارت نے انہیں اس دورے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

مظالم کی نئی داستان کا آغاز

بھارتی فوج کی بربریت بڑھنے لگی تو بہت سے کشمیریوں نے 28 مارچ 1990ء سے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر کی طرف ہجرت شروع کردی۔ واضح رہے کہ 27 فروری کو سری نگر میں دس لاکھ سے زاید افراد بھارت کے خلاف نکلے تھے۔ اس موقعے پر بھارتی پولیس کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ لہٰذا اس موقعے پر 40 نہتے کشمیریوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ وہ واقعہ بہت سے کشمیریوں کے لیے دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ مگر حریت پسندوں کے حوصلے پھر بھی پست نہیں ہوئے تو10اپریل کو بھارت کے وزیراعظم نے جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’ہم اس و قت تک نہیں رکیں گے جب تک اپنے مقاصد حاصل نہ کرلیں‘‘۔

کرشنا رائو کا گھناونا اعتراف

جولائی 1990ء میں بھارت کی پارلیمان نے جموں اینڈ کشمیر ڈسپیوٹیڈ ایریا ایکٹ منظور کیا جس کے تحت بھارت کی سیکیورٹی فورسز کو کشمیریوں کے خلاف کارروائی کے غیر معمولی اختیارات مل گئے۔ 20 جنوری 1995ء کو بھارت نے مسئلے کے حل کا ایک اور دروازہ بند کرتے ہوئے تیسرے فریق کی ثالثی کو رد کردیا۔16ستمبر 1996 ء کو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھکوسلہ کیا گیا جس کا بھانڈا عالمی ذرایع ابلاغ نے پھوڑ دیا۔ 27سمبر 1997ء کو خصوصی قوانین کی منظوری دی گئی جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کو مظالم کی مزید چھوٹ ملی۔19مارچ 1998ء کو مقبوضہ کشمیر کے گورنر کرشنا رائو نے قبول کیا کہ بھارتی افواج کشمیر میں قتل عام کی ذمے دار اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

بھارت کی قلابازیاں ،دھونس ، دھمکی کچھ کام نہ آیا

کشمیریوں کی نئی تحریک مزاحمت شروع ہونے سے اب تک بھارت نے بہت سی قلابازیاں کھائیں، بہت سے ڈھونگ مذاکرات ہوئے، کبھی جوہری دھماکوں کے ذریعے پاکستان اور کشمیریوں کو دھمکانے اور کبھی کشمیریوں کو مراعات دے کر ساتھ ملانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری رہی ۔برہان وانی کی شہادت نے اس میں نئی روح پھونکی۔بھارت کی جانب سےحال ہی میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے باوجود کشمیری عوام تحریکِ آزادی کسی بھی صورت میں ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پانچ اگست کے اقدام سے آج تک مقبوضہ کشمیر کے بیش تر حصوں میں کرفیو نافذہے،کیوں کہ بھارت کو پتا ہے کہ جس روز کرفیو اٹھایا گیا اس روز اس کے اقدام کا جنازہ نکل جائے گا۔

 تحریکوں کی کام یابی چند برسوں کی بات نہیں ہوتی
ممتازکشمیری حریت پسند رہنما، شبیر احمد شاہ سے 2014میں لیے گئے انٹرویو سے اقتباسات

ممتازکشمیری حریت پسند رہنما اور جمّوں اینڈ کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ، شبیر احمد شاہ 14 جون 1953ء کو کڈی پورہ، اسلام آباد (مقبوضہ کشمیر) میں متوسط طبقے کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوگئے تھے، لہٰذا اسکول کے بعد زیادہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ نصف زندگی جیل میں گزارنے اور ہر طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود آج بھی ان کے حوصلے بلند ہیں۔ یومِ یکجہتیِ کشمیر کے حوالے سے جنوری 2014 کے آخری ہفتے میں ’’روزنامہ جنگ‘‘کےاس نمائندے نے بہ ذریعہ ٹیلی فون سری نگر میں ان سے رابطہ کیاتھا۔ان سے ہونے والی گفتگوکی تفصیلات ’’روز نامہ جنگ‘‘میں شایع ہوچکی ہیں۔آج کشمیرکے خصوصی حالات کے تناظر میںاس گفتگو سے کچھ اقتباسات ذیل میں پیشِ خدمت ہیں۔تاہم انہیں2014کے حالات کے تناظر میں پڑھاجائے۔

س: دونوں طرف کے کشمیریوں کی اتنی قربانیوں کے باوجود چناروں کی آگ اب تک کیوں بھڑک رہی ہے؟

ج: ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئیں۔ جس پر اس قوم نے بھروسہ کیا اسی نے انہیں دھوکا دیا۔ میری مراد، شیخ عبداللہ سے ہے۔ 1953ء میں وہ کشمیر کی آزادی کی تحریک چلا رہے تھے۔ پھر نہرو کی دوستی کے چکر میں پڑ کر وہ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعظم بن گئے اور پھر کشمیر کی آزادی کی بات کرنے پربھارت نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ پھر 1975ء میں ایک معاہدے کے تحت سید میر قاسم کو دِلّی کے آقائوں نے حکم کیا تو شیخ عبداللہ کو انتخابات کے بغیر مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ انہیں اقتدار کی ہوس تھی جس کی وجہ سے کشمیریوں میں مایوسی پھیلی۔ حالاں کہ لوگوں نے ان کے نام پر اپنی ہر شئے قربان کردی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پارلیمان کے اندر اور باہر کہا تھا کہ کشمیر میں حالات سازگار ہوتے ہی وہاں کے لوگوں سے ان کی رائے پوچھی جائے گی۔ سری نگر کے تاریخی چوک میں نہرو نے کشمیریوں سے کہا تھا کہ ان کا جو فیصلہ ہوگا بھارت اسے قبول کرے گا اور اگر کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہے تو ہمیں افسوس ہوگا، لیکن ہم اسے بھی قبول کریں گے۔ لیکن پھر بھارت کے حکم راں اس وعدے سے مکر گئے۔ 1947ء میں تین لاکھ کشمیری جموں میں ہندوئوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ گزشتہ بائیس برسوں میں مزید ایک لاکھ بیس ہزار کشمیری شہید کردیے گئے۔ دس ہزار نوجوان لاپتا ہیں اور ہزاروں مائوں بہنوں کی عزتیں لوٹی جاچکی ہیں۔ بھارت نے ہماری تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ کام یاب نہیں ہوسکا۔ ہم ہمیشہ مذاکرات کے حق میں رہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بھارت نے 564 ریاستوں سے بھارت میں شامل ہونے کے بارے میں پوچھا تو ہمیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا۔ جموں و کشمیر کے عوام 1988ء تک پرامن انداز میں آزادی کی تحریک چلا رہے تھے، لیکن جب بھارت نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تو لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ میں چودہ برس کی عمر میں پہلی بار گرفتار ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک وقفے وقفے سے مجھے گرفتار اور رہا کیا جاتا رہا۔ آزادی کی جدوجہد کرنے کے جرم میں مجموعی طور پر میں 29 برس جیل میں گزار چکا ہوں۔ جموں و کشمیر کی تمام اور بھارت کی متعدد جیلوں اور تفتیشی مراکز میں مجھے رکھا گیا۔ میں ہی کیا مقبوضہ کشمیر کے لاتعداد نوجوان چودہ تا سولہ برس جیلوں میں گزار چکے ہیں۔

س: بھارت یہ تاثر دیتا ہے کہ کشمیریوں کی قیادت تقسیم ہے لہٰذا وہ کس سے بات کرے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ج: بدقسمتی سے ہمیں رہبروں کے روپ میں کئی رہزن ملے۔ لیکن اب کشمیری ہوشیار اور سیاسی طور پر حساس ہوگئے ہیں۔ تحریکوں کی کام یابی چند برسوں کی بات نہیں ہوتی۔ فطری عمل کے ذریعے ان میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں آزادی کی تحریک کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لہٰذا وہ مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ شہیدوں کی ہزاروں گم نام قبروں، بڑی تعداد میں زیر حراست قتل اور دیگر مظالم کے باوجود تحریک آزادی جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی۔ یہ درست ہے کہ ہماری بھی بعض خامیاں ہیں، لیکن ہم سب نے ہمیشہ مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ تاہم ہمارے درمیان موجود بعض میر جعفر اور میر صادق ہمارے اتحاد میں آڑے آتے رہتے ہیں۔ میں نے 2008ء میں تمام جماعتوں کے اتحاد کے لیے بہت کوشش کی تھی، لیکن نتائج نکلنے سے پہلے مجھے گرفتار کرلیا گیا ۔ تحریکوں میں ایسے مراحل آتے رہتے ہیں۔ اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔تقسیم پیدا کرنے کے لیے بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ استعمال ہوئے۔ بھارت ہر وقت ہمیں توڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بھارت سے جھک کر بات نہیں کرنی چاہیے۔ میرا ایمان ہے کہ ایک روز کشمیر کی آزادی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔

ہم پاکستانی قوم کے احسان مند ہیں جو 1947ء سے آج تک ہر طرح سے ہمارے ساتھ رہی ہے اور اس نے اپنی ہر شئے ہمارے لیے قربان کی، تین جنگیں لڑیں اور ہمارے جو لوگ بھارت کے مظالم سے تنگ آکر آزاد کشمیر پہنچے انہیں سینے سے لگایا۔پاکستان سفارتی سطح پر اور عالمی فورمز پر اس مسئلے کے بارے میں آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ لیکن اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی کشمیر کمیٹی کو مزید فعال کرے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو بھی اس میں جگہ دے۔ تاہم بھارت اس بارے میں کہیں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔وہ بار بار مذاکرات سے مکر جاتا ہے۔ مشرقی تی موراور سوڈان میں تو اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرچکا ہے، پھر یہاں کیوں نہیں کرسکتا؟

س: زندگی کا بڑا حصہ جیل میں گزارنے سے آپ کی نجی زندگی اور اعصاب پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور بھارت کو آپ سے اتنی ’’محبت‘‘ کیوں ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد وہ آپ کو ’’سرکاری مہمان‘‘ بنا لیتا ہے؟

ج: جیلیں اور زیر حراست قتل ہمارا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہم تو اس تحریک کو آخرت سنوارنے والا عمل سمجھتے ہیں۔ 1989ء میں پولیس لائن، اسلام آباد (مقبوضہ کشمیر) میں والد کو شہید کردیا گیا، لیکن ہم رکے نہیں۔ ہم آج جو کچھ ہیں وہ مقام ہمیںکشمیر کے شہیدوں اور عوام کی وجہ سے ملا ہے۔ ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ کشمیر کے عوام کا قرض ہمارے کاندھوں پر ہے۔ جیل میں سختیاں بڑھتی ہیں تو یہ ہی بات سوچ کر انہیںخوش دلی سے سہہ لیتا ہوں۔ ساٹھ برس کا ہوچکا ہوں۔ 1998ء میں شادی کی۔ میری دو بچیاں ہیں۔ میرے خاندان کا جینا مرنا کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔میں نے 1954ء میں یوتھ لیگ سے آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی۔ شدید دلی تمنا ہے کہ حج پر اور پاکستان جائوں۔ لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے پاسپورٹ تک نہیں جاری کیا گیا۔بہ حیثیت مسلمان میری خواہش ہےکہ خاتمہ ایمان پر ہو۔ 1998ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مجھے ضمیر کا قیدی قرار دیا۔ مجھ پر کوئی مقدمہ نہیں پھر بھی طویل قید کاٹ چکا ہوں۔ بھارتی پولیس اور فوج مجھے کسی کے ہاں تعزیت کے لیے بھی نہیں جانے دیتی لہٰذا چوری چھپے جاتا ہوں ۔ کشمیر کے چپے چپے پر فوج تعینات ہے۔ سات لاکھ فوج پر اربوں روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ہندوستان یہ رقم اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے پر خرچ کرے تو ان کی حالت بہتر ہوجائے۔ ہمارا کیا ہے ہم تو اس حال میں بھی خوش ہیں۔

یہاں ہم پر قدغنیں بہت ہیں۔ 2010ء میں رہائی کے پندرہ ماہ بعد مجھے پھر نظر بند کردیا گیا تھا۔ 115 جمعے اور چھ عیدیں ایسی گزریں کہ مجھے مسجد تک نہیں جانے دیا گیا۔کسی جلسے یا عوامی اجتماع میں جانے نہیں دیتے۔ لوگوں سے رابطہ کرنے کےلیےچوری چھپے جاتے ہیں تو لوگ خود بہ خود جمع ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ قدغنیں نہ ہوں تو دنیا دیکھے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ابھی تو ہمیں آزادی کے لیے لڑتے ہوئے صرف چھیاسٹھ برس ہوئے ہیں۔ ہم جس سے لڑ رہے ہیں وہ تو خود سو برس تک غلام رہا ہے۔

تازہ ترین