میں ایچ ای سی (HEC)کا بانی چیئرمین تھا، میرا اس ادارے سے بڑا گہرا تعلق ہے، جب بھی اس ادارے پر کوئی آنچ آتی ہے تو میں بے چین ہو جاتا ہوں اور میری بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ میں اس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کروں۔ ماضی گواہ ہے کہ اس کے لئے چاہے مجھے عدالت کی سیڑھیاں ہی کیوں نہ چڑھنا پڑیں میں نے اس ادارے کی بقاء کے لئے اس سے بھی دریغ نہیں کیا اور دو دفعہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں اس ادارے سے علیحدہ ہونے کے باوجود بھی اس کی بہتری کے لئے انفرادی طور پر لڑتا رہا جس کے نتیجے میں 2011میں سپریم کو رٹ نے میری اپیل پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے اس کو تباہ کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ غیر قانونی قدم تھا اور یہ ایک خود مختار وفاقی اور ملک کی تمام جامعات کا ذمہ دار ادارہ رہے گا۔ میں نے اس ادارے کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ 2008ءمیں اس وقت کی حکومتی ناانصافیوں کی وجہ سے دیا تھا جب ہزاروں طلباء غیر ممالک تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے ان کے وظیفے اس وقت کی پی پی پی حکومت نے روک لئے تھے۔ اس ادارے نے قیام کے بعد سے اب تک کافی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 2002ءمیں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد، اس کمیشن نے شاندار کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ایچ ای سی جب وجود میں آئی اس وقت پاکستان کی کسی بھی جامعہ کا شمار دنیا کی 500چوٹی کی جامعات میں نہیں ہوتا تھا۔ 2002ءسے 2008ءکے درمیان ہماری کئی جامعات بین الاقوامی ٹائمز ہائیر ایجوکیشن درجہ بندی کے مطابق دنیا کی 300سے 500جامعات کی صف میں شامل ہو گئی تھیں، ان میں سائنس کے میدان میں جامعہ کراچی 223ویں نمبر پر، نسٹ 250ویں نمبر پر اور یو ای ٹی(لاہور) 281ویں پر (عالمی درجہ بندی برائے قدرتی سائنس) آ گئی تھیں جبکہ نسٹ عام درجہ بندی میں 370ویں نمبر کی مجموعی سطح پر تھی۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی مگر افسوس کہ 2008ءکے بعد سے بجٹ میں متواتر کمی اور بدانتظامی کے سبب حالات خراب ہوتے گئے اور آج اسی عالمی درجہ بندی میں کئی جامعات جو ایک درخشندہ ستارے کی مانند جگمگما رہی تھیں اب اس فہرست میں پاکستان کی ایک بھی جامعہ شامل نہیں ہے۔
مضبوط و مربوط پالیسیاں ہی ادارے کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں۔ الحمدللہ 2002سے 2008کے دوران نافذ کردہ ایچ ای سی کی اصلاحات کے نتیجے میں حیران کن حقیقت اور خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان 2017میں فی شخصی تحقیقاتی پیداوار میں بھارت سے سبقت لے گیا ہے۔ 2002سے پہلے فی دس لاکھ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی 186اشاعت کے مقابلے میں پاکستان کی صرف 53بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اعلیٰ معیار کی (’’امپیکٹ فیکٹر‘‘ سائنس ویب کے اعداد و شمار) تحقیقاتی اشاعتیں تھیں۔ اُس وقت ہم بھارت سے تقریباً 400فیصد پیچھے تھے۔ ایچ ای سی اصلاحات و مقرر کردہ اعلٰی معیار کی تحقیق پر بھرپور توجہ دینے کے نتیجے میں ڈرامائی طور پر اگلے پندرہ سالوں میں تبدیلی رونما ہوئی اور پاکستان نے 2017ء میں بھارت سے ( فی آبادی کے تناسب سے) تحقیقاتی اشاعت میں سبقت حاصل کرلی اور اس طرح 2018ء میں، بھارت کی 708اشاعتوں کے مقابلے میں پاکستان کے 916تحقیقی مقالے شائع ہوئے، یعنی بھارتی تحقیقاتی اشاعت کے مقابلے میں پاکستان کی تحقیقاتی اشاعت تقریباً 30فیصد زائد ہو گئی ہیں۔ بھارت کو اس طرح پیچھے چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مندرجہ بالا شاندار کامیابی انہیں اصلاحات کا نتیجہ ہے کیونکہ درست سمت اور معیار کو قائم رکھتے ہوئے مرتب کردہ دور اندیش پالیسیوں کی بدولت ہی کو ئی ادارہ کامیابیوں کی منازل طے کرتا ہے، ان پالیسیوں کو مرتب کرنے میں ڈاکٹر اکرم شیخ اور ڈاکٹر سہیل نقوی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں چند مندرجہ ذیل اقدامات قارئین کی توجہ کیلئے پیش کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے جامعات میں فیکلٹی کے اراکین کی تقرری اور فروغ کے معیار کو بین الاقوامی طریقے پر منظور شدہ بہترین عوامل پر کاربند کیا گیا، صرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اعلیٰ معیار کے تحقیقی جرائد میں اشاعت کو فیکلٹی کی ملازمت کیلئے لازمی قرار دیا گیا۔ 2002ءسے پہلے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے دور میں کوئی معیار نہیں تھا اور کہیں بھی شائع شدہ اشاعتوں کو تسلیم کر لیا جاتا تھا۔
دوسرا اہم قدم یہ تھا کہ تقرریوں کا ایک نیا نظام ’’ٹینیور ٹریک نظام‘‘ متعارف کرایا گیا جسکے تحت فیکلٹی ممبران کو صرف تین سال کیلئے معاہدے پر مقرر کیا جاتا ہے اور معاہدے کی تجدید انکی کارکردگی اور بین الاقوامی تشخیص پر منحصر ہوتی ہے۔ اس نظام میں تنخواہیں بہت اچھی تھیں۔ اسلئے ہمارے بہترین طالبعلموں نے تعلیمی کیریئر کا انتخاب کرنا شروع کیا، اس نظام نے غیر ملکی علماء کی بڑی تعداد (جیسے گورنمنٹ کالج جامعہ، لاہور میں ریاضی کے مرکز) کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس نظام کے تحت تقریباً 600چوٹی کے غیر ملکی محقیقین نے پاکستان کی جامعات میں کام کرنا شروع کیا۔ اس نظام میں کمزور کارکردگی کے فیکلٹی ممبران کو جامعات میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور معیار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ تحقیقی اشاعت میں تعداد کے بجائے معیار پر زور دیا گیا اور نقل یعنی ’’کٹ اور پیسٹ‘‘ کی ثقافت جو پہلے عام تھی اسکی شدید حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور یہ یقینی بنایا گیا کہ پی ایچ ڈی کے تھیسس بشمول تمام اشاعتیں تمام یونیورسٹیوں کیلئے دستیاب کردہ خاص سافٹ ویئر کے ذریعے جانچ کئے جائینگے جو فوری طور پر کسی بھی پہلے سے شائع شدہ کاپی کردہ مواد کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی فیکلٹی کی تیاری کو اہمیت دی گئی اور گیارہ ہزار سے زائد نوجوان طلباء کو بیرون ملک سب سےاعلیٰ جامعات میں تحقیقی تعلیم کیلئے بھیجا گیا۔ پھر ان کی وطن واپسی یقینی بنانے کیلئے انکی واپسی سے ایک سال قبل ملازمتوں کا انتظام کیا گیا اور انہیں ایک لاکھ ڈالر تک تحقیقاتی فنڈ حاصل کرنیکی سہولت دی گئی جس کیلئے وہ بیرون ملک مطالعے کی مدت مکمل کرنے سے ایک سال قبل درخواست دے سکتے تھے۔ اسکےعلاوہ ’’حساس تحقیقی آلات‘‘ تک ’’آسان رسائی‘‘ کے نظام کو متعارف کرایا گیا تاکہ تحقیقی کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور ہر محقق کو پورے ملک کی کسی بھی جامعہ میں تحقیق کیلئے جدید آلات تک رسائی حاصل ہو۔ یہی نہیں بلکہ ایک آن لائن لائبریری قائم کی گئی جسکے ذریعے 65ہزار کتابوں اور 25ہزار بین الاقوامی جرائد تک مفت رسائی فراہم کی گئی۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی تیزی سے ترقی اور پیش رفت نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور بھارتی وزیراعظم کو 22 جولائی، 2006ء میں میرے ان اقدامات اور پیشرفت کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی، 23 جولائی 2006ءکو معروف بھارتی انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ شائع کی جسکے مضمون سے صاف ظاہر تھا کہ ہم ایچ ای سی میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو بڑھانے کیلئے جو کچھ کر رہے تھے ہندوستان نے اس تیز ترین کامیابی کو اپنے ملک کیلئے خطرہ محسوس کیا، ہندوستان ٹائمز کے مقالے کی سرخی تھی’’پاکستان کی جانب سے بھارتی سائنس کو خطرہ‘‘۔ (جاری ہے)