جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو تب مفید ہو گی جب کوئی درخواست دائر کی جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی جس میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل انور منصور خان اور ڈی جی ایف آئی اے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قابلِ اعتراض ویڈیو پرتو جج نے بھی اعتراف کیا ہے، لیکن جو ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی وہ اصل ثابت کیسے ہو گی؟
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی کاپی کا فارنزک ہوسکتا ہے یانہیں؟؟ یہ بھی دیکھنا ہے کہ یوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں؟؟ لگتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہے، دو تین دن میں اس معاملے پر فیصلہ دیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے یہ کہانی بنائی وہ اس سے لاتعلق ہوگئے، سب نے ہی اس کہانی سے جان چھڑالی ہے، سب سے پہلے یہ ویڈیو اصل ثابت ہوگی تو کافی اثر انداز ہو گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دیا گیا تھا، اس رپورٹ میں 2 ویڈیوز کا معاملہ تھا، ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ ناصرجنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کرایا، کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرایا تھا؟
جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ ارشد ملک کی تعیناتی کرانے والا مبینہ شخص سامنے نہیں آیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس وقت کی حکومت نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد ارشد ملک کی تعیناتی کی، رپورٹ کے مطابق ناصرجنجوعہ دعویٰ کررہا ہے کہ ارشد ملک کو اس نے تعینات کرایا۔
جسٹس عظمت سعید نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ارشد ملک کی ویڈیو کا فارنزک تجزیہ کیا گیا؟
ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ وہ ویڈیو ہمارے پاس نہیں۔
اس پر جسٹس عظمت سعید برہم ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ویڈیو سوائے ایف آئی اے کے پورے پاکستان کے پاس ہے، سارا پاکستان اور عدالت ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ ویڈیو صحیح ہے؟
ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اس ویڈیو کا فارنزک نہیں ہوا، جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو ویڈیو کے فارنزک کی بھی یقین دہانی کرائی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ سے ابہام پیدا ہوا ہے، غالباً 2 ویڈیوز تھیں، قابل اعتراض ویڈیو وہ تھی جس سے جج کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا قانونی فائدہ اٹھانے کے لیے کسی عدالت میں کوئی درخواست دی گئی؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو تب فائدہ مند ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی، یہ دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی کاپی کا فارنزک ہوسکتا ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہے کہ یوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے یہ کہانی بنائی وہ اس سے لاتعلق ہوگئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ ویڈیو اصل ثابت ہوگی تو کافی اثر انداز ہو گی، جج ارشد ملک کا ایک ماضی ہے جسے وہ مان رہے ہیں، انہیں تو کوئی بھی بلیک میل کرسکتا ہے، جسے سزا دی اس کے گھرچلے گئے، اس کے بیٹے سے ملنے سعودی عرب چلے گئے، کیوں؟ ارشد ملک کی حرکت سے ہزاروں دیانتدار اور محنتی ججوں کے سرشرم سےجھک گئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ اس سارے معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں، ہمارا تعلق اپنے جج سے ہے، اس کے کردار پر بہت سے سوالیہ نشان آگئے ہیں، جج نے بہت سی چیزیں حلف نامے اور پریس ریلیز میں بتائیں، معلوم نہیں جج صاحب کو کس نے مشورہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس ویڈیو کو اصل ثابت کرنا بہت مشکل کام ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قابل اعتراض ویڈیو پرتو جج نے بھی اعتراف کیا ہے لیکن جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی وہ اصل ثابت کیسے ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ ویڈیو کا معاملہ ماہرین سے کلیئر کرائیں کہ فارنزک ہو سکتا ہے یا نہیں، رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ آڈیو ریکارڈنگ الگ کی گئی، پریس کانفرنس کے دوران ویڈیو کا سب ٹائٹل بھی چل رہا تھا، لگتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیلا ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کی سماعت مکمل ہو گئی اور دو تین دن میں ہم اس معاملے پر فیصلہ دیں گے۔
واضح رہےکہ مسلم لیگ نون نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوازشریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔