• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیم ِہند کے وقت (پاکستان ویسٹرن ریلوے کو) مجموعی طور پر مین اور برانچ لائنوں کا جو وسیع جال بچھا ہوا ملا، حالات کی ستم ظریفی کہئے کہ 72برسوں کے دوران یہ مزید پھیلنے کے بجائے سکڑتا چلا گیا اور آج پشاور سے کراچی اور کوئٹہ تا کراچی مین لائن کے سوا برانچ لائنوں کے بہت کم سیکشن ایسے ہوں گے جو اصل حالت میں موجود ہوں۔ متعدد بند ہو چکے ہیں، بعض مقامات پر سے لوگ ریل کی پٹڑیاں تک اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور 22کروڑ آبادی کے اس ملک میں ریل کے مسافروں کی تعداد میں الٹا کمی آتی گئی۔ مال گاڑیوں کی آمد و رفت گزشتہ دو دہائیوں سے نہ ہونے کے برابر ہے، ہزاروں ایکڑ ریلوے اراضی پر لوگوں کا ناجائز قبضہ ہے، کیرج فیکٹری اسلام آباد، مغل پورہ لاہور، لوکو موٹو فیکٹری رسالپور جیسے ہزاروں ملازمین کے حامل ادارے سفید ہاتھی بن کر رہ گئے ہیں۔ مختلف شہروں میں قائم ریلوے اسپتال بند پڑے ہیں۔ الغرض 1960کی دہائی تک چلنے والا انتہائی متحرک اور نہایت فعال نظام آج بے سرو سامان ہے۔ ان حالات میں اپنی بے بسی کا رونا رونے والے اس محکمے کی بحالی کا بیڑہ نئے پاکستان کا وژن رکھنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے اٹھایا ہے جو بلاشبہ انتہائی چیلنجنگ اقدام ہے۔ اس ضمن میں وزارت ریلوے کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جس میں ریلوے کی ترقی کیلئے ہونے والے اقدامات کی تفصیل شامل ہے۔ ان اقدامات میں 24نئی مسافر ٹرینوں کا افتتاح، ساڑھے 54ارب روپے کا ریونیو اور 4ارب روپے کی اضافی آمدنی سرفہرست ہیں جبکہ چین کی شراکت سے کراچی تا پشاور مین لائن پر 1872کلو میٹر طویل ٹریک کی اَپ گریڈیشن کے منصوبے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف ریلوے لائن کی خستہ حالی سے حادثات کی تعداد بڑھ کر ایک سال میں 87تک پہنچ چکی ہے جن میں کئی مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹرینوں کی آمد و رفت میں گھنٹوں کی تاخیر سے مسافروں کی پریشانی اس کے علاوہ ہے، حکومت کو یہ مسائل بھی حل کرنا چاہئیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین