اسلام آباد (طا ہر خلیل )حکومت نے الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کر دی ۔ خالد محمود صدیقی سندھ اور منیر احمد کاکڑ بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ممبر ہوں گے ۔وزارت پارلیمانی امور نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔ اس نوٹیفکیشن کے بعد حکومت اپوزیشن میں نیا تنازع کھڑا ہو گیا اور اپوزیشن نے حکومت کے دونوں نام مسترد کر دیئے ۔ اور قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے ۔ سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری غیر قانونی اور آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ اس قسم کے فیصلے سے الیکشن کمیشن آزاد اور غیر جانبدار نہیں رہے گا۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان ہے ۔ آئین میں اس طرح کی تقرری کی کوئی گنجائش نہیں۔ حکومت کا فیصلہ پارلیمنٹ کی تذلیل ہے ، الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے دو ارکان جسٹس عبدالغفار اور جسٹس شکیل بلوچ کی 26جنوری2019کو ریٹائرمنٹ کے بعد یہ دونوں عہدے خالی ہو گئے تھے ۔ نئے ممبران کی تقرری کےلئے آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل 12رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی تھی ۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی میں مرتضیٰ جاوید عباسی ، وزیر مملکت علی محمد خان ، رانا ثنا اللہ خان،سید فخر امام ، وفاقی وزیر محمد میاں سومرو، سید خورشید شااحمد شاہ ، شاہدہ اختر علی، سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو، وفاقی وزیر اعظم سواتی ، سینیٹر مشاہد اللہ خان اور سینیٹر نصیب اللہ بازئی شامل تھے۔آئینی تقاضا ہے کہ وزیر اعظم اور قائد حز ب اختلاف کے مابین الیکشن کمیشن میں تقرری کےلئے نئے ناموں پر مشاورت ضروری ہے لیکن حکومت نے مشاورت کا نیا انداز اپنایا اور وزارت خارجہ کے گریڈ18کے افسر کے ذریعے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو خط کے ذریعے تجویز کردہ نام بھجوائے ۔اپوزیشن نے یہ خط مسترد کر دیا تھا کہ اس طرح آئین کے طے کردہ طریق کار کے مطابق مشاورت نہیں ہوتی ۔