• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ویڈیو اسکینڈل، سزا ختم کرانے کیلئے ویڈیو کی تصدیق اور ریکارڈ کرنے والے کی گواہی ضروری، سپریم کورٹ

جج ارشد ملک ویڈیو کیس کا تفصیلی فیصلہ


اسلام آباد (ایجنسیاں، جنگ نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو کے سابق جج محمد ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے حوالہ سے دائر تین درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ فیصلہ 25صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ ایسا شخص جو ویڈیو یا آڈیو ریکارڈ کرے اس کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ ہی جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کی سزا ختم بھی کر سکتی ہے اور اسے برقرار بھی رکھ سکتی ہے،ویڈیو سے متعلق ارشد ملک کے بیانات ان کیخلاف کارروائی کیلئے کافی ہیں دھمکیاں مل رہی تھیں تو اعلیٰ عدلیہ کو آگاہ کیوں نہیں کیا۔عدالت نے قرار دیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ سماعت کے بعد احتساب عدالت کے فیصلہ میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کوبھجوا سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہو گا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر ہو گا۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ متاثرہ فریق اگر ویڈیو سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہیں درخواست دینی ہو گی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جج ارشد ملک کا طرز عمل پورے ادارے کیلئے بدنما داغ،بیان شرمناک طورپر ظاہر کر رہا ہے ان کا ماضی مشکوک رہا ہے، جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمرعطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید خا ن کھوسہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔ درخواستیں اشتیاق احمد مرزا، سہیل اختراور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔ عدالت نے کیس کے حوالہ سے تمام درخواستوں کو نمٹا دیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے اس مرحلہ پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ویڈیو کے معاملہ پر کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی اے پہلے ہی معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے ۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ ویڈیو کے اثرات پر کوئی رائے دینا مناسب نہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جج ارشد ملک کا طرز عمل پورے ادارے کے لئے بدنما داغ کی طرح ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جج کا بیان شرمناک طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ ان کا ماضی مشکوک رہا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ویڈیو سے متعلق ارشد ملک کے بیانات ان کے خلاف کارروائی کے لیئے کافی ہیں، جج کا بیان حلفی اور پریس ریلیز ایک تلخ حقیقت ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ویڈیو مستند اور مضمرات کے حوالہ سے ابھی فیصلہ جاری کرنا بہتر نہیں۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی خود ہی ان کے خلاف چارج شیٹ ہے اور ارشد ملک نے پریس ریلیز اور بیان حلفی جاری کر کے یہ ثابت کیا کہ ان کا ماضی مشکوک تھا ۔

تازہ ترین