کہا جاتا ہے نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام ذی شعور اقوام ان کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ ہمارے وطن عزیز کا شمار اس حوالے سے خوش قسمت ترین ممالک میں ہوتا ہے کہ یہاں آبادی کا بیش تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جیسے گھر کے فرماں بردار اور لائق، فائق بچے سے پورا خاندان امیدیں باندھ لیتا ہے کہ بڑا ہو کر وہ خاندان کا نام روشن کرے گا، بالکل اسی طرح ہماری قوم نے بھی نسل نو سے بہت سی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں کہ وہ اس قوم کو بام عروج تک پہنچائے گی۔ اسی لئے بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر ان کے حق، ان کو سہولتیں فراہم کرنے، انہیں ایک ایسا ماحول دینے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جہاں ان کی صلاحیتیں نکھر سکیں، خود اعتمادی میں اضافہ ہو اور یہ سب طلباء یونین کی بحالی سے بآسانی ممکن ہے۔ طلباء یونینز پر پابندی کو تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر تاحال یہ پابندی برقرار ہے۔ آج ہماری اسمبلیوں میں بیشتر تو نہیں کچھ سیاست دان ایسے ہیں جو اپنے زمانے میں طلباء یونین کے فعال کارکن تھے، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ انہوں نے بھی نسل نو کی جمہوری تربیت اور تعلیمی اداروں میں صحت مند سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لئے یونین کی بحالی پر توجہ نہیں دی۔ 32 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن طلباء یونین پر عائد پابندی کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔ ہمارے نوجوانوں کو ووٹ ڈالنے کا حق تو حاصل ہوگیا مگر تعلیمی اداروں میں اپنے مسائل کے حل کے لئے نمائندے منتخب کرنے کا حق تاحال انہیں نہ مل سکا۔ طلباء یونین کے حق میں اسمبلی میں قراردادیں بھی پیش کی گئیں لیکن ان کا حال بھی باقی قراردادوں سے مختلف نہیں۔ واضح رہے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں طلباء یونین کی بحالی کے لئے وزراء پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی جس نے طلباء یونین کی بحالی کے حوالے سے رپورٹ تشکیل دینا تھی مگر اس کمیٹی نے بھی کوئی رپورٹ پیش نہ کی۔ اور یہ پابندی آج تک برقرار ہے۔ آج کی نسل تو جانتی تک نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان کے حق کے لئے آواز بلند کرنے والی کوئی تنظیم بھی ہوا کرتی تھی، جو درس گاہوں میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ میں موثر کردار ادا کرتی تھی، اس کا نقصان یہ ہوا کہ طلباء یونین کی جگہ سیاسی تنظیموں نے لے لی، جن کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہوا۔ طلباء کی سیاسی تربیت کا سلسلہ رک گیا۔ ہماری اسمبلیاں تربیت یافتہ نوجوان سیاست دانوں سے محروم ہوگئیں۔ گھر سے لے کر کلاس روم تک ہر جگہ سے طلباء کو سیاست سے دور کردیا گیا اور اپنی توانائیاں صرف اور صرف تعلیم حاصل کرنے کا درس ملتا ہے۔ یونین پر پابندی کو تین دہائیاں گزر جانے کے بعد آج کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کی اکثریت طلباء یونینز ہی سے ناواقف ہے۔ جنرل ضیاء کے دور سے پہلے تک پاکستان میں طلباء یونین تھیں، جو طلباء کے حقوق کے لئے کردار ادا کرتی تھیں۔ آج کی نسل کو تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز کی تعمیر، یونیورسٹی ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسائل طلباء یونین نے اداروں کی انتظامیہ اور ریاستی انتظامیہ کے ساتھ باقاعدہ ایک منظم سیاسی لڑائی لڑ کر حل کروائے تھے، یہی نہیں بلکہ ان یونین کی وجہ سے نوجوانوں میں ترقی پسند سیاسی جمہوری ماحول پروان چڑتا تھا، مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کروائے جاتے تھے، علمی و ادبی نشستیں ہوتی تھیں، جس کی وجہ سے نوجوان محض نصابی کتابوں تک ہی محدود نہیں رہتے تھے، اسے ہر موضوع، ہر شعبے کی معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ تعلیمی اداروں میں ترقی پسند، جمہوری، سازگار ماحول تھا، جس میں ایک دوسرے کے اختلافی نقطہ نظر کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا تھا اور اظہار رائے کو اہمیت دی جاتی، کسی بھی اختلافی نقطہ نظر کو جبر کے ذریعے دبانے کے بجائے بحث و مباحثے کے ذریعے حل کیا جاتا تھا۔ ہمارے ملک میں طلباء یونین کی ایک طویل اور سنہری تاریخ گزری ہے۔ جب تک یہ یونین بحال تھیں، اس وقت تک تعلیمی اداروں کا ماحول ترقی پسند، جمہوری اور سیاسی تھا، ان کے توسط سے نہ صرف طلباء کے مسائل پر بلکہ معاشرے کے دیگر مسائل پر بھی بات کی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے حکمراں طبقے کو طلباء کی طرف سے سماجی و سیاسی مسائل پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سیاست سے لے کر معیشت تک طلباء بطور ایک پریشر گروپ کے موجود تھے اور حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور لوٹ کھسوٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اور اس کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے نوجوان سیاسی طور پر زیادہ باشعور، مسائل سے آگاہ، معاشرتی مسائل پر بھی توجہ دینے والے بلکہ ان کے حل کے لئے عملی طور پر سرگرم تھے۔ آج بھی اگر ماضی میں طلباء یونین سے تعلق رکھنے والے کسی بزرگ سے بات کریں تو ان کی معلومات شعبہ سیاسیات کے طالب علم سے کہیں زیادہ ہے۔ آج کا نوجوان سیاست کو بطور نصاب پڑھتا ہے، لیکن عملی طور پر اس سے کٹا ہوا ہے، جبکہ ہمارے بڑے طلباء یونین کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے، ان کا حصہ رہے۔ طلباء یونین صرف فیسوں، ہاسٹلز اور دیگر مسائل تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ طلباء کی ثقافتی و سیاسی درس گاہ کی بھی اہمیت رکھتی تھیں۔ ان یونیز پر پابندی تو عائد کردی گئی مگر تعلیمی اداروں میں اس کی جگہ غندہ گردی کلچر نے لے لی جس کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ یونیورسٹیاں اور کالج اسلحے اور منشیات کے اڈوں میں تبدیل ہوگئے۔ جمہوری اور تخلیقی ماحول کا قلع قمع کر کے نظریات کی اہمیت اور طاقت کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ ایک وقت تھا کہ نہ صرف تعلیمی اداروں کے مسائل بلکہ ملکی اور عالمی سطح پر رونماء ہونے والے واقعات جامعات کے نوجوانوں کے بحث و مباحثوں میں زیر غور آتے تھے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے۔ اکیسویں صدی کے آتے آتے جو نسلیں پروان چڑھیں، وہ طلباء یونین کے نام سے ناآشنا تھیں۔ گزشتہ برس سینٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے طلباء یونین کی بحالی کے لئے آواز اٹھائی تو یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید عرصہ دراز سے پابندی میں جکڑی طلباء یونین پھر سے تعلیمی اداروں کو صحت مند سرگرمیاں اور نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنے کے لئے بحال ہو جائیں گی لیکن تا دم تحریر کا نتیجہ جوں کا توں ہے۔
آج جامعات اور کالجوں میں طلباء کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے، اگر طلباء یونین ہوتیں تو یقیناً ان پریشانیوں اور مسائل کو حل کرا دیتیں۔ مثلاً پچھلے چند سالوں میں ہی یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ زائد فیسوں کی شکل میں طلباء اور ان کے والدین پر جبر کی انتہا کر دی گئی ہے۔ جب تک طلباء یونین بحال تھیں اس قسم کے مسائل سر نہ اٹھاتے تھے اور اگر ہوتے بھی تھے تو طلباء کے نمائندے انتظامیہ سے بات چیت کے ذریعے انہیں حل کر لیتے تھے۔ مگر آج نوجوان طالب علموں کے پاس اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے یا ان کا دفاع کرنے کے لئے کوئی موثر پلیٹ فارم نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی تنظیموں کے یوتھ ونگز کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ، جب تک طلباء یونین بحال تھیں تمام پالیسی میٹرز میں ان کے نمائندئوں کی رائے بھی شامل کی جاتی تھی تاکہ طلباء کا موقف بھی سامنے آ سکے۔ یونیورسٹی کے طالب علموں کے حقوق کا خیال رکھنا یونین کے نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی تھی یعنی فیسوں کا مسئلہ ہو یا کینٹین کے معاملات وغیرہ طے کرنا، ان تمام معاملات میں طلباء یونین ایک پریشر گروپ کے طور پر عمل کرتی تھی۔
طلباء یونینز کی بحالی کے مطالبے کی گونج وقفے وقفے سے ایوانوں میں سنائی تو دیتی ہے لیکن صرف باتوں، کمیٹیوں، اجلاسوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ جب بھی طلباء یونین کی بحالی کی بات کی جائے تو کچھ حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ، ان کی بحالی سے کہیں نوجوان پڑھائی چھوڑ کر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو جائیں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ طلباء یونین دراصل نوجوانوں کی جمہوری فکر، سوچ، فلسفے اور تربیت کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل نسل نو کے ہاتھ میں ہے، آگے چل کر انہوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو پھر پڑھے لکھے نوجوانوں کو سیاست کا شعور کیوں نہیں دیا جاتا، کیوں سیاست میں دلچسپی لینا ان کے لئے شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے؟ یہ دور نوجوانوں کا ہی ہے، انہیں سیاست سے دور رہنے کی تلقین نہیں بلکہ ان کی سیاسی تربیت کرنی چاہئے، جمہوریت کی اہمیت و افادیت سے روشناس کروانا چاہئے، تاکہ مستقبل میں ہمیں باشعور، تربیت یافتہ سیاست دان میسر آ سکیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ طلباء یونین کی بحالی کو ممکن بنایا جائے تاکہ تعلیمی اداروں میں سیاست کی نرسریاں پھر سے مستقبل کے معماروں کی تربیت میں مشغول ہو جائیں۔