معروف لوک فنکار جگر جلال چانڈیو اور اس کے چار ساتھیوں کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا۔ مغویوں کی کچے کے جنگلات میں موجودگی کی اطلاع پر پولیس آپریشن کیا گیا۔ شکارپور کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوںکے خلاف آپریشن میں پولیس کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑا، ڈاکوئوں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی شہید ہوگئے، جب کہ ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ پولیس کی جانب سے 3ڈاکوئوں کو ہلاک کئے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ شکارپور کے کچے کے جنگلات میں چند ماہ کے دوران پولیس کا یہ تیسرا بڑا نقصان ہے۔ اس سے قبل ڈاکوئوں سے مقابلے کے دوران 2پولیس افسران سمیت 3اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ پولیس مقابلے کے دوران شہید ہونے والے ڈی ایس پی ،راؤ شفیع اللہ کو سپرد خاک کردیا گیا۔
پولیس کی جانب سے سکھر و شکارپور کے کچے کے جنگلات کو ڈاکوئوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لئے چند ماہ سے آپریشن جاری ہےجس کے دوران ڈاکوئوں کی درجنوں پناہ گاہوں کو مسمار کرکے نذر آتش کیا گیا ہے اور کچے کے جنگلات کا وسیع حصہ ڈاکوئوں سے خالی کرایا گیا ہے۔ آپریشن کے دوران ڈاکوئوں کے گرد گھیرا مسلسل تنگ کیا جارہا ہے تاہم ڈاکوئوں کی جانب سے پولیس آپریشن کے جواب میں شکارپور کے جنگلات میں رد عمل دیا جارہا ہے۔ دریائے سندھ میں سیلابی صورتحال کے باعث پولیس کی جانب سے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا ۔ دریائے سندھ میں سطح آب بلند ہونے اور کچے کے علاقے زیر آب آنے کے بعد ڈاکوئوں کی عام لوگوں کا روپ دھار کر مختلف علاقوں میں منتقلی کی کوششیں ناکام بنانے اور ان کی گرفتاری یقینی بنانے کے لئے سکھر پولیس نے حکمت عملی ترتیب دی گئی تھی۔ ایس ایس پی سکھر ،عرفان علی سموں کی جانب سے دریائی بندوں اور کچے کے دیگرعلاقوں میں پولیس کی متعددچیک پوسٹیں قائم کرکے جدید اسلحے و آلات سے لیس پولیس کمانڈوز، اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا، ڈاکوئوں کے فرار کے تمام راستے مسدود کردیے گئے، پولیس اہلکاروں کے پاس جدید اسلحہ، بکتر بند گاڑیاں، دور تک دیکھنے والی دوربینیں ودیگر جدید آلات موجود ہیں جن کے ذریعے ڈاکوئوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی جارہی تھی ۔ اس دوران کچے کے علاقوں سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے 4ڈاکوئوں کو مقابلے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کیا تھا اور ان سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔ فرار کے تمام راستے مسدود ہونے کے بعد ڈاکوئوں نے شکارپور کے کچے کے علاقے میں لوک فنکار جگر جلال چانڈیو اور اس کے ساتھیوں کو پروگرام کرنے کی دعوت دی، جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو انہیں اغوا کرلیا گیا، جن کی بازیابی کے لئے پولیس کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیاتھا۔ اس دوران پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلہ ہوا، ڈاکوئوں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی خانپور ،رائو شفیع اللہ شہید اور ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔واضح رہے کہ ڈاکوئوں کی جانب سے شکارپور کے کچے کے علاقے میں آپریشن کرنے والی پولیس پارٹی پر یہ تیسرا بڑا حملہ تھا۔ عیدالفطر سے قبل بھی شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے دوران ایک ایس ایچ او اور ایک اے ایس آئی شہید ہوگئے تھے جبکہ جولائی کے وسط میں بھی ایک پولیس اہلکار ڈاکوئوں کی فائرنگ سے شہید ہوا تھا اور اب ڈاکوئوں نے ڈی ایس پی رائو شفیع اللہ کو شہیدکردیا۔ چند ماہ کے دوران شکارپور ضلع میں ڈاکوئوں سے مقابلے کے دوران 3پولیس افسران سمیت 4اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ شہید ہونے والے ڈی ایس پی رائو شفیع اللہ کی نماز جنازہ سکھر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں ادا کی گئی جس میں ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد، ڈی آئی جی سکھر اقبال دارا، ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ، سکھر کے ایس ایس پی عرفان سموں، رینجرز کے افسران سمیت شکارپور، خیرپور، گھوٹکی اضلاع کے پولیس اور انتظامی افسران ، سیاسی سماجی شخصیات، تاجروں، سول سوسائٹی کے افراد اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 53 سالہ مرحوم ڈی ایس پی شفیع اللہ 1992 میں بطور اے ایس آئی پولیس میں بھرتی ہوئے اور 2000 میں انہیں انسپکٹرکی حیثیت سے ترقی دی گئی تھی۔وہ سکھر، خیرپور شکارپور ودیگر اضلاع کے مختلف تھانوں پر ایس ایچ اوز تعینات رہے۔ ڈی ایس پی بننے کے بعد خانپور ، ضلع شکارپور میں ان کی پہلی تعیناتی تھی۔
مرحوم پولیس افسر کی نماز جنازہ کے بعد ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن نے پولیس ہیڈ کوارٹر میں پولیس حکام کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شہادتیں ہمارے فرض کا حصہ ہیں۔اپنے فرائض کی بجا آوری کرتے ہوئےکانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف کارروائیوں کے دوران بدنام ڈاکو بھی جہنم واصل ہوچکے ہیں، ان ڈاکوئوں کا نجام بھی برا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو جانی نقصانات ہونے کے باوجود ان کے خلاف جاری آپریشن میں کمی واقع نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ لوک فنکار جگر جلال چانڈیو سمیت دیگر مغویوں کی بہ حفاظت بازیابی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، ہم ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے، جب کہ مغوی جلال نے بھی فون پربہ حفاظت بازیابی اور آپریشن روکنے کی استدعا کی ہے،اس لئے فی الحال آپریشن روک رہے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوگی دوبارہ آپریشن شروع کریں گے۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ڈاکوئوں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گن اور جدیدترین بھاری ہتھیار ہیں، جو پولیس کے پاس نہیں ہیں۔ ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے پولیس کو جدید ہتھیار اور ضروری آلات و سہولتیں فراہم کیے جائیں۔ کندھ کوٹ، گھوٹکی کے درمیان پل بنادیا جائے تو کچے کا وسیع و عریض علاقہ دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور ڈاکوئوں کی ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا مشکل ہوجائے گی۔ پل کی تعمیر کے لئے حکومت کو درخواست دی ہے، پی سی ون بھی بنی ہے، لاڑکانہ، خیرپور کے درمیان پل بننے سے وہاں پر موجود ڈاکو ختم ہوگئے، اب لوگ رات کو بھی ان علاقوں میں گھومتے ہیں۔ اگریہاں بھی برج بنادیا جائے تو اس سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔ اس وقت دریائے سندھ میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہے، اور جب پانی کا لیول ڈھائی لاکھ کیوسک سے بڑھ جاتا ہے تو کچے کے علاقوں میں آپریشن مشکل ہوجاتا ہے۔ ابھی مزید ایک اور ریلا آرہا ہے، اس صورتحال میں کچے کے علاقے میں آپریشن ممکن نہیں، ہم انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کررہے ہیں، پانی کی سطح کم ہوگی تو بھرپور انداز سے آپریشن کریں گے، اگر کسی دیگر فورس کی ضرورت ہوئی تو ان سے بھی مدد لی جائے گی۔