وقار ملک ،کوونٹری،یو کے
صدر ٹرمپ کے ثالثی کے کردار اور بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیریوں کے وکیل اور حریت رہنما بیرسٹر مجید ترمبو کی ایک آواز نے دنیا میں ہلچل مچا دی جس کی گونج پاکستان حکومت تک پہنچی اور ہر سطح پر بھارت کے خلاف احتجاج کی ٹھان لی گئی ۔بیرسٹر مجید ترمبو سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں ۔اپنے خاندان کو مقبوضہ کشمیر میں خیر آباد کہہ کر لندن اور برسلز میں بھارت کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔آپ کی للکار اور کام کے انداز نے برسلز میں بھارتی سفارت کاروں کی دوڑیں لگوا دیں، بلکہ بھارت نے بیک وقت 50 سفارت کاروں کی تعداد میں اضافہ بھی کر دیا۔
بیرسٹر ترمبو سرینگر کے ایک ممتاز کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔کشمیر کے لیے آواز اٹھانے پر ان کے خاندان کے افراد کو پابند سلاسل کر دیا گیا تاکہ کشمیر کی بات کرنا چھوڑ دیں لیکن مسٹر ترمبو نے بھارت کے آگے سر نہ جھکایا اور پہلے سے زیادہ اپنی تحریک کا آغاز کر دیا ۔بھارت کے اوچھے ہتھکنڈوں اور سازشی سوچ سے بخوبی واقف بیرسٹر ترمبو کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ بھارت اب کوئی نئی چال چلنے والا ہے اس لیے انہوںنے یورپین پارلیمنٹ کے آڈیٹوریم میں کئی ممبر پارلیمنٹس کو اکھٹا کیا۔ پاکستان سے سنیٹر مشاہد حسین کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی، جنھوں نے اپنے خوبصورت انداز اور وسیع معلومات پر پارلیمنٹس کے ممبران کو قائل کیا اور بھارت کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا۔ اسی سیمینار کے تناظر میں بیرسٹر ترمبو نے سلامتی کونسل اور او آئی سی کو خطوط بھی لکھے۔ بھارت کے جنگی جنون اور کشمیر کی حیثیت ختم کرنے پر انہوں نے ایتھنز ، اٹلی، جرمنی ناروے میں بھرپور مظاہروں کا اہتمام کیا، جس میں ہزاروں مظاہرین نے شرکت کی ۔
یونان کے شہر ایتھنز میں تاریخ میں پہلی بار منظم انداز میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک بھرپور احتجاجی کشمیر ریلی نکالی گئی ۔تین گھنٹے جاری رہنے والی ایک ریلی میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی ۔شرکاء میں کشمیری، پاکستانی، بھارتی مسلمان اور دیگر کمیونٹیز کے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ ریلی اپنے مقررہ راستے سے گذرتی ہوئی ٹائون ہال کے بڑے اسکوائر پر اختتام پذیر ہوئی۔ شرکاء نے کشمیر کی آزادی اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف نعرے بازی بھی کی ۔ شرکاء نے بھارتی وزیراعظم مودی سرکار کے خلاف بینرز بھی اٹھا رکھے تھے ۔بھارتی آئین میں 370اور 35-A کی شق کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ۔خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد شروع سے بیرسٹر مجید ترمبو پاکستان اور کشمیر کے حق میں بلند آواز میں نعرے لگاتے رہے۔
کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔ کئی مواقع پر غیر ملکی بھی بیرسٹر مجید ترمبو کے نعروں کا جواب وکٹری کا نشان بنا کر دیتے رہے۔ اس موقعے پر بیرسٹر ترمبو نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر جنوبی ایشیا کا فلش پوائنٹ بن چکا ہے۔ عالمی اداروں اور تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا سنجیدگی سے حل تلاش کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ اکتوبر کے بعد یورپی یونین سے الگ ہوتا ہے تو برطانیہ کی حکومت کو بھارت سے تجارتی تعلقات اس وقت تک منقطع کرے جب تک مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند نہیں کرتا ۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پائے جانے والی کشیدگی کی صورتحال سے پوری دنیا بے چین ہے ۔ دنیا کی حکومتوں کو چاہئے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں۔ انھوں نے کہا کہ سرینگر کو ایک بہت سنگین جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر کشمیری عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے ۔
انھوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو فوری طور پر بند کرانے کے اقدامات کئے جائیں اور عالمی تنظیموں سے کہا کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں۔ عالمی امن کی تنظیموں کو چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور جنگی اقدامات کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔عالمی برادری بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکا جاسکے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرنے کی جس طرح سازش کی ہے،بھارت کو آج نہیں تو کل اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔