• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر ہر کہیں سیاست ’’کھیلی‘‘ جاتی ہے تو کیا ہم سیاست کو کھیل سمجھیں، تحقیق نہیں؟ ہم نے تو ایک طبقہ ایسا بھی دریافت کیا ہے جو سیاست کھیلنے والوں سے بھی ’’کھیل‘‘ جاتا ہے۔ کبھی تعلیم اور کبھی تکریم کے نام پر!

ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن کم نہیں ہوتی سو پچھلے دنوں ہم نے سوال اٹھایا کہ یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کرتے کیا ہیں؟ اور وہ امریکہ میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’’کرائم سنڈیکیٹ‘‘ کیا بلا ہے؟ معلوم نہ تھا ہمارے کرم فرما اس بات کا اس قدر برا مان جائیں گے اور اپنے کلب میں اس پر نکتہ چینی کریں گے۔ کاش اس بزمِ اجمال میں کوئی تفسیر مفصل ہوتا کیونکہ آپ نے تو تاریخ تراشنی اور صدیاں آباد کرنا ہیں! سبھی افکار کا عنوانِ اِرادت آپ اہلِ کرم ہی ہو اور ہم آپ اہلِ علم کے طرف دار ہیں، کوئی لُٹیروں کے وفادار تو نہیں لہٰذا غصہ کیوں؟ استاد کا احترام آج بھی ہے کہ اعلیٰ عدالتیں یونیورسٹیوں کے کیس اس امید کے ساتھ سنڈیکیٹس میں بھیج دیتی ہیں کہ وہاں موجود لوگ تعلیم و تحقیق سے انصاف کریں گے کسی حرص و ہوس سے نہیں کیونکہ سنڈیکیٹ وہ مجاز اتھارٹی ہے جو تعلیم و تحقیق ہی نہیں تحقیقی رویوں کو بھی توازن بخشنے والا سہولت کار گروپ ہے جو 20سے 25افراد پر مشتمل ہوتا ہے جس میں علاقہ کے معززین، ماہر تعلیم، ماہر سیاسیات، ایچ ای سی و ایچ ای ڈی کے نمائندے اور کچھ ججز ہوتے ہیں۔ بجٹ اور تقرریوں کی منظوری، تحقیقی معاملات کی نگہبانی اور تدریس کی آبیاری سنڈیکیٹ ہی کا کام ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم متحرک اور فہیم ہو تو سب اچھا بصورت دیگر ساری محنتیں اور ریاضتیں بےکار!

ہم تو چاہتے ہیں کہ نکتہ چینیاں ہوں مگر نئے ایونیو کھولنے کیلئے کسی مافیا یا کسی جمود کی پرورش یا جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے نہیں، باغ و بہار اور گل و گلزار کیلئے لیکن نکتہ چینی کہتے کسے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے، ہماری پارلیمنٹ کو یہ معلوم بھی ہے؟ کیا ہماری حکومت یا ہمارے کرم فرما اس کی اجازت بھی دیتے ہیں؟ امریکہ ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ممالک یہ سب بحث و تمحیص، ریسرچ، انصاف اور انسانی حقوق(جمہوریت) کی ترتیب کی پیداوار ہیں۔ ذرا غور فرمائیے! ایک پروفیسر کی تحقیق اور تنقید پر کہ مسلسل پچھلے دو برس سے جب امریکی اداروں میں غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے داخلوں میں 7فیصد کمی ہوئی اور گزشتہ سال امریکی معیشت کو مجموعی طور پر 42ارب ڈالر کا نقصان ہوا تو آکسفرڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبہ کے رجحانات کے ماہر پروفیسر سمسن مارگنسن نے اس کا ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ کو ٹھہرایا۔

یاد آیا، ہمارے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کا ہاسٹل نمبر 2مختص ہی بین الاقوامی طلبہ کیلئے تھا۔ اب کہاں ہیں وہ طلبہ؟ یہ ہماری تعلیمی ترقی ہے؟ 1996میں میری سید مودودی انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ لاہور سے کچھ عرصہ وابستگی رہی، اس کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے تھا، اس میں 17ممالک کے طلبہ تھے اور کم و بیش 5ممالک کے اساتذہ، بدقسمتی سے مشرف حکومت نے اس پر قدغن لگادی اور بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی نے اس کا الحاق بھی ختم کردیا۔ کیا ہمارے کسی پروفیسر نے اس پر تحقیق کی کہ ہماری بین الاقوامیت کا کتنا نقصان ہوا، ذمہ دار کون ہے؟ اگر ہمارا ہائر ایجوکیشن کا معیار بین الاقوامی طلبہ کیلئے باعثِ کشش نہیں رہا تو پالیسی ساز و قانون ساز اور سنڈیکیٹس کتنے ذمہ دار ہیں؟ ہماری نئی یونیورسٹیاں جدتوں کے اعتبار سے صفر اور سیاسی آلودگی کے سبب بوسیدہ ہیں تو ذمہ دار کون؟

جامعہ پنجاب کے آئی ای آر، جامعہ کراچی وغیرہ کے ایجوکیشن یا سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ کے کسی پروفیسر نے اس پر تھیسس کیا کہ یونیورسٹیاں قحط الرجال کا شکار کیوں ہیں؟ کوئی ریسرچ کہ یونیورسٹیوں کو ان کے سنڈیکیٹس نے کتنا اور کیسے کیسے نقصان پہنچایا؟ کیا کسی لاء کالج کے کسی پروفیسر کی ریسرچ ہے کہ جب کوئی کیس ہو ہی کسی وائس چانسلر کے خلاف اور وہ کیس براہِ راست یا اعلیٰ عدالت کے ذریعے سنڈیکیٹ میں جائے گا اور وائس چانسلر ہی نے اس سنڈیکیٹ کو چیئر کرنا ہو تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ کیا کسی ماہر تعلیم، ماہر سماجیات یا ماہر قانون پروفیسر نے کوئی مقبول مقالہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی لائبریری یا ملک کی کسی بڑی لائبریری کو دیا کہ یونیورسٹیوں کے بےشمار کیس عدالتی دہلیز پر کیوں ہوتے ہیں؟ کسی پروفیسر، کسی سوشل سائنٹسٹ یا کسی ایجوکیشنل انجینئر کا مقالہ وائس چانسلر سرچ کمیٹیوں کی کارکردگی اور غلط تقرری کی پاداش میں ہونے والے اثرات پر؟ کیا تعلیم کی اس علمی اور عملی ریسرچ کیلئے میٹیریل، لیب اور آلات و آلہ کاروں کی یہاں کوئی کمی ہے؟ ایسی ریسرچ کے کتنے حوالہ جات ہمیں قیامِ پاکستان سے آج تک کی تعلیمی پالیسیوں میں ملتے ہیں؟

ہمارے فاضل دوستوں کو کون بتلائے کہ سدا آپ ہی نے ان نشستوں پر براجمان نہیں رہنا، علاوہ ازیں بحث و تمحیص کے دریچوں کا کھلنا ہی ترقی یا تبدیلی کی نوید ہوتا ہے، جہاں بحث کی زبان پر تالے پڑیں پھر وہیں نیب کی آمد ہوتی ہے۔ صداقت عامہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کو خطرات اور حادثات سے پاک کرنا ہے تو یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹس کو کرپشن فری اور تعلیم دشمنی سے پاک کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اس میں کم تعلیم یافتہ ممبرانِ صوبائی اسمبلی غیر سنجیدہ معززین کی نفی ضروری ہے، ڈی ای اوز، کالج پرنسپلز، بورڈز چیئر پرسنز چونکہ یونیورسٹیوں کی تحقیق و تدریس سے ناآشنا ہوتے ہیں سو ان کی نفی بھی ضروری ہے۔

جاتے جاتے دو سوال جو جواب اور بحث طلب ہیں کہ (1)کچھ مخصوص حالات میں جب وائس چانسلر نے تقرریاں بغیر اشتہار یا اقربا پروری کی بنیاد پر کی ہوں یا بجٹ اور ترقیوں میں میرٹ کو سبوتاژ کیا ہو تو کیا وہ سنڈیکیٹ کی سربراہی کا حق رکھتا ہے؟ (2)جو ممبر ایجنڈا پڑھ اور سمجھ نہ سکتا اس کا سنڈیکیٹ میں کوڑھ کی کاشت کے سوا کام کیا ہے؟ بہرحال یہ بحث ابھی باقی ہے تاہم سنڈیکیٹ اور ’’کرائم سنڈیکیٹ‘‘ میں فرق سمجھنا گورنمنٹ کا کام ہے!

تازہ ترین