• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے کئی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کچھ عرصہ قبل تک تیسری دنیا کے گمنام ممالک میں شمار کئے جاتے تھے یہ ایسے ممالک تھے جہاں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے لیکن پھر وہاں کے حکمرانوں نے ملک کی پالیسیوںمیں کچھ ایسی تبدیلیاں کیں کہ وہاں دنیا بھر کے سرمایہ کار وں نے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرکے ان ممالک کو عالمی ترقی یافتہ ممالک میں تبدیل کردیا ، ان ممالک میں دبئی ، چلی ، سائوتھ افریقہ جیسے ممالک کی مثالیں اس لئےدی جاسکتی ہیں کہ ان ممالک میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کاحجم بھی اربوں ڈالر سے کم نہیں ہے ،تو ان ممالک نے ایسا کون سا راستہ اختیار کیا کہ اتنی کم مدت میں ان ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا سیلاب آیا اور اقتصادی ترقی کی رفتار انتہائی تیز کردی ، جی ہاں ان ممالک نے اپنے کچھ ساحلی شہروں کو فری پورٹ یا ری ایکسپورٹ زون قرار دیکر عالمی سرمایہ کاروں کیلئے کشش پیدا کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان ممالک نے معاشی ترقی کی حدوں کو چھولیا ، میں نے دبئی ،سائوتھ افریقہ اور چلی کا نام اس لئے لیا ہے کہ ان ممالک میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ا ربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کسی بھی وقت پاکستان کی معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کرکے پاکستان لائی جاسکتی ہے ، اس وقت دبئی میں لاکھوں پاکستانی روزگار کے حصول کیلئے مقیم ہیں وہاں کی حکومت نے دبئی کو ری ایکسپورٹ زون کے علاوہ انتہائی کم شرح پر اشیاء امپورٹ کرنے کی اجازت کیساتھ ساتھ کرپشن فری اور قانون کی عملداری کے حوالے سے مثالی ملک بناکر دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ، اس سرمایہ کاری میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی بھی بہت بڑی سرمایہ کاری شامل ہے ، اسی طرح چلی کی حکومت نے شمالی امریکہ کے ممالک کیلئے اپنے ملک کو ری ایکسپورٹ زون قرار دے کر دنیا بھر سے بہت بڑی سرمایہ کاری حاصل کی یہاں بھی پاکستانی سرمایہ کاروں کا بہت عمل دخل ہے ،ایک اندازے کے مطابق صرف جاپان میں مقیم پاکستانی سرمایہ کار ہر سال چلی کے ری ایکسپورٹ زون میں جاپان سے ایک ارب ڈالر کی استعمال شدہ جاپانی گاڑیاں اور مشینیں برآمد کرتے ہیں جہاں چلی کے پڑوسی ممالک سے تاجر آتے ہیں اور وہاں سے استعمال شدہ جاپانی گاڑیاں خرید کر اپنے اپنے ممالک لے جاتے ہیں ، اس عمل سے نہ صرف چلی کی حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں بھاری آمدنی ہوتی ہےبلکہ چلی کے شہریوں کو ری ایکسپورٹ زون میں بڑی تعداد میں ملازمتیں میسر آتی ہیں وہاں زمینوں کی قیمتیں اب آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں ،مکانوں کے کرائے ہزاروں ڈالر ہوچکے ہیں جبکہ سیاحوں اور کاروباری شخصیات کی روزمرہ آمد کے سبب ہوٹلوں میں جگہ کی کمی رہتی ہے ، کچھ اسی طرح کی صورتحال سائوتھ افریقہ کے شہر ڈربن کی ہے ۔ افریقہ کے اندرونی ممالک میںساحل نہ ہونے کی وجہ سے تمام تر تجارت ڈربن سے کی جاتی ہے اسی لئے سائوتھ افریقہ کی حکومت نے ڈربن میں ری ایکسپورٹ زون قائم کردیا ہے جس کے سبب وہاں بڑی تعداد میں دنیا بھر کے تاجروں نے اپنے دفاتر قائم کرلئے ہیں اور ٹیکسٹائل ،سیمنٹ اور کھانے پینے کی اشیاء سے لیکر استعمال شدہ گاڑیوں کے شوروم تک قائم کردئیے ہیں جس کے بعد ڈربن میں ہر سال اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے ، اور اس تجارت میں بھی پاکستانی سرمایہ کاروں کا بڑا رول ہے ،دبئی ، سائوتھ افریقہ کے شہر ڈربن اور شمالی امریکہ کے ملک چلی کی مثالیں پیش کرنے کا مقصد پاکستان کے شہر گوادرکی اہمیت کا احاطہ کرنا مقصود تھا ، کیونکہ گوادرمیں اس وقت جو اقتصادی راہداری پر کام کیا جارہا ہے وہ گوادر سے ہوتی ہوئی چین ،افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک جائے گی جہاں ساحلی شہر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تجارتی اہمیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر اس موقع پر حکومت پاکستان گوادر میں کچھ علاقوں کو ری ایکسپورٹ زون قرار دیدے تو پھر دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری گوادر منتقل کی جاسکتی ہے ، صرف حکومت کی ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ گوادر میں قانون کی سخت ترین عملداری عمل میں لائے ، یہاں کی انتظامیہ کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں اپنائی جائیں ، اس وقت جاپان میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو استعمال شدہ گاڑیوں کی بہت بڑی تعداد میں برآمد جاری ہے اور ہر سال کروڑوں ڈالر کی گاڑیاںجاپان سے براستہ چین اور پھر وہاں سے پندرہ دن کی بذریعہ ریل مسافت کے بعد وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچائی جاتی ہیں لیکن اگر گوادر میں فری پورٹ یا ری ایکسپورٹ زون قائم کردیا جائے تو وسطی ایشیا کے ممالک سے بڑی تعداد میں تاجر حضرات گوادر کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ، جبکہ جاپان میں مقیم پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت گوادر کے راستے کرینگے، تجویز یہ ہے کہ حکومت گوادر کے کچھ علاقوں کو ری ایکسپورٹ زون کیلئے مختص کردے جہاں حکومت پاکستان ری ایکسپورٹ کیلئے کم سے کم ایک ایک ایکڑ پر مشتمل استعمال شدہ گاڑیوں کے ایک ہزار شوروم قائم کرکے پاکستانیوں سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اچھی قیمت پر فروخت کرسکتی ہےان شورومز میںپاکستانی و غیر ملکی سرمایہ کار جاپان ،امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک سے استعمال شدہ گاڑیاں لاکر رکھ سکیں گے اور دنیا بھر سے آنے والے تاجروں کو فروخت کرسکیں گے ، اسی طرح حکومت ایک ہزار ایکڑ پر مختلف سائز کے ویئر ہائوس قائم کرکے سرمایہ کاروں کو گوداموں کی شکل میں فروخت کرسکتی ہے جہاں وہ ٹیکسٹائل سے لیکر کھانے پینے کی اشیاء اور فرنیچر تک اسٹاک کرسکتے ہیں جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کیا جاسکے گا ، اسی طرح اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی آمد کے پیش نظر گوادر میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار ہوٹل انڈسٹری قائم کرسکتے ہیں ، غرض حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسیوں کیساتھ چند سالوں میں ہی گوادر میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا حصول نہایت آسان بنایا جاسکتا ہے ،اس سے گوادر کے مقامی افراد کو نہ صرف اچھا روزگار حاصل ہوسکے گا بلکہ پاکستان کی قومی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے ،اتنی بڑی سرمایہ کاری کے سبب گوادر میں دبئی کی طرح تعمیراتی انڈسٹری کا سیلاب آسکتا ہے جہاں پاکستانی سرمایہ کاروں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اگر ان سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں ہی فری زون میں سرمایہ کاری کے مواقع حاصل ہوں تو دبئی سے بھی بہت بڑی سرمایہ کاری گوادر منتقل ہوسکے گی ، یہاں ہم نے صرف تین سے چار شعبوں کی مثالیں دی ہیں لیکن اگر قیادت مخلص ہو اور ملک کی ترقی ہی اصل مقصد ہوتو پاکستان کے مستقبل کو گوادر کے ذریعے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیلئے اپنے پانچ سال مکمل کرنا اہم ہے یا پھر ملک کا حقیقی اور سنہرا مستقبل زیادہ اہم ہے ، لیکن یہ سب ثابت کرے گا وقت ۔ ہم بھی دیکھتے ہیں اور آپ بھی دیکھیں ۔
تازہ ترین