• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداکارہ و ہدایت کارہ سنگیتا نے نہایت کم عمری میں اپنے فنی سفرکا آغاز فلم’’کنگن‘‘سے کیا۔ اگرچہ انہوں نے بہ حیثیت اداکارہ بہت کم کام کیا تاہم جب وہ ہدایت کاری کے میدان میں اتریں تو ان کے کام کوبہت سراہا گیا۔ انہوں نے ہدایت کاری شروع کی تو اپنی فلموں میں اپنی چھوٹی بہن کویتاکو اداکاری کی طرف راغب کیا،کویتا نے بہن کا کہا نہ ٹالا اور اپنی بہن کی توقعات پرپورا اتریں۔ سنگیتا نے بہ حیثیت ہدایت کارہ نام کمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان فلم انڈسٹری بحران کا شکار تھی اور نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا تھا مخصوص کرداروں کی چھاپ لگ چکی تھی۔مخصوص طبقہ ہی سینما کا رخ کرتا، جبکہ کئی سینما شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اس دور میں سنگیتا نے نئے ٹرینڈز اور موسیقی کے ساتھ فلموں میں جدت پیدا کی اور فلم بینوں کو سینما کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کے کریڈٹ پر بہت سی کامیاب فلمیں ہیں۔حال ہی میں ان کی ہدایت کاری میں فلم ’’تم ہی تو ہو‘‘ریلیز ہوئی ہے، فلم ریلیز سے قبل انہوں نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا ۔اس موقعے پر ہمیں ان سے بات چیت کا موقع ملا،انہوں نے ماضی کی یادوں کے ساتھ فلمی صنعت کے جدید دور کے حوالے سےاپنے خیالات کا اظہار کیا۔گفتگو کا احوال نذر قارئین ہے:

جنگ:دس سال کے طویل وقفےبعد آپ نے فلم’’تم ہی تو ہو‘‘بنائی ہے؟طویل عرصے غیرحاضررہنے کی وجہ کیاتھی؟

سنگیتا: جی وقت تو واقعی بہت گزر گیا۔کچھ نجی مصروفیا ت تھیں جن کی وجہ سے میں نے وقفہ لیا تھا۔چونکہ زندگی ہی فلمی دنیا میں بسر ہوئی ہے تو اس سے زیادہ دور نہیں رہا جاسکتا،لہذا فلم ’’تم ہی ہو‘‘بنانے کا سوچا۔اس فلم کی کہانی ہالی وڈکی فلم لو اسٹوری اور پاکستانی کلاسک فلم میرا نام ہے محبت سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔فلم کی عکس بندی تو 2016 میں مکمل ہو گئی تھی لیکن بعض وجوہ کی بنا پراس کی ریلیز میں تاخیر ہوگئی۔ جلد ہی مزید ایک بڑے بینر کی فلم بنانے کا ارادہ بھی ہے۔

جنگ: اداکاری کے میدان میں کس طرح وارد ہوئیں؟

سنگیتا: مجھے اداکاری کابالکل بھی شوق نہیں تھا، میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، لیکن والدین کو بہت شوق تھا کہ ان کی بیٹی ’’اسٹار‘‘ بنے،کیوں کہ ان کا تعلق بھی شوبز سے تھا۔میرے والد کا نام سید طیّب حسین رضوی اور والدہ کا نام مہتاب بانو تھا۔والدفلموں کی پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن سے وابستہ تھے۔وہ 1960 سے 1990 تک فلمی دنیا میں خاصے متحرک رہے،جبکہ والدہ فلم پروڈیوسر اور اسکرین پلے رائیٹر تھیں۔ہماری ہوم پروڈکشن(پی این آر،پروین اینڈ نسرین )کے نام سے تھی۔جسے میرے نام پروین رضوی اور چھوٹی بہن نسرین رضوی (کویتا) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا،اس کے تحت والدین نے کئی معروف فلمیں پروڈیوس کیں۔ والدہ نے سوسائٹی گرل، عشق عشق ،تھوڑی سی بے وفائی جیسی ہٹ فلموں کے اسکرین پلے لکھے۔بہرحال والدین کو شوق تھا کہ چوں کہ میں بڑی بیٹی تھی لہذا مجھے بہ حیثیت اداکارہ متعارف کرایا جائے۔انہیں دیکھ کر مجھے بھی خواہش ہوئی کہ میں فلموں میں کام کروں ،شہرت کسے اچھی نہیں لگتی، جب میں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو مداحوں کا بھی ایک بڑا حلقہ بن گیا۔ مجھے اداکاری کرنا بہت اچھا لگنے لگا حالانکہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جب آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر، انجینئر یا ٹیچر بنیں گے لہٰذا میں نے بھی سوچا تھا کہ ڈاکٹر بنوں گی اور نام پیدا کروں گی لیکن میں اداکاری کے میدان میں کود پڑی ،یہاں شہرت بھی بہت ملی۔فلم انڈسٹری کے لیے میں نے اپنا نام بھی تبدیل کیا۔ میری والدہ نے فلموں کے لیے میرانام ’’سنگیتا‘‘رکھا ۔اسی دوران چھوٹی بہن بھی فلم انڈسٹری کا حصہ بنی ،والدہ نے اس کا فلمی نام ’’کویتا‘‘رکھاتھا۔ کویتا مختصر عرصے تک فلموں سے منسلک رہیں بعدازاں وہ امریکا منتقل ہوگئیں۔

جنگ :بطور ہیروئن پہلی فلم کب کی اور کتنی فلموں میں کام کیا؟

سنگیتا :پہلی فلم ’’کنگن‘‘ میں بطور ہیروئن کام کیا۔ فلم کے ہدایت کار رحمان تھے۔ اس کے بعد تین سے چار برس فلموں میں بطور ہیروئن کام کیا۔اردو اور پنجابی زبانوں میں تقریباً ڈیڑھ سو فلموں میں کام کیاہے ، محمد علی ،وحید مراد،سلطان راہی اور شاہد کے ساتھ کافی فلموں میں کام کیا۔ فلم’’ مٹھی بھر چاول‘‘، میں مجھے بہترین اداکاری پر نگار ایوارڈ ملا تھا۔دوسری فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ تھی، جس پر مجھے اسپیشل ایوارڈبھی ملا تھا،جبکہ ریاض شاہد کی فلم ’’یہ امن‘‘میں مجھے بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا،یہ بھی بتادوں کہ ہدایتکارہ کے طور پر 80فلمیں ڈائریکٹ کی ہیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔

جنگ :اداکاری سےہدایت کاری کی طرف کس چیز نے مائل کیا ؟

سنگیتا :جب میں فلم انڈسٹری میں آئی تو کم عمر تھی۔اس وقت میری عمر بارہ یا تیرہ برس تھی۔ ابتداءمیں بطورچائلڈ اسٹار کام کیا، لیکن نہ جانے کیوں میں مطمئن نہ تھی، جبکہ شہرت بے حد مل چکی تھی اور کام بھی بہت مل رہا تھا، لوگ پسند کررہے تھے۔ لیکن مجھے بطور ہیروئن کام سمجھ میں نہیں آیا۔کچھ عرصے تک میں نے اردو اور پنجابی فلموں میں لیڈنگ رول کیے۔ پھر میں نے جائزہ لینا شروع کیا کہ سیٹ پر سب سے زیادہ اہم شخص کون ہے ، اندازہ ہوگیا کہ ’’ڈائریکٹر‘‘ سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ’’ہدایتکارہ‘‘ ہی بننا ہے۔اس لمحےمیں نے فیصلہ کرلیا کہ ہدایتکارہ بن کر فلمسازی کے لئےاپنے خیالات کو عملی جامہ پہنائوں گی۔ میں نے 1976 میں پہلی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ ڈائریکٹ کی جو ہماری ہوم پروڈکشن تھی۔میری اس کاوش کو بے حد پسند کیا گیا۔میں اچھوتے موضوعات پر کام کرنا چاہتی تھی ،لہذا 1978 میں ’’مٹھی بھر چاول‘‘ بنائی جو کہ راجندر سنگھ بیدی کے ناول ’’اک چادرمیلی سی‘‘سے ماخوذ تھی۔یہ فلم بہت ہٹ ہوئی۔1983 میں فلم ’’تھوڑی سی بے وفائی‘‘بنائی یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جو امریکا میں شوٹ ہوئی تھی۔میں نے زیادہ تراردو زبان میں فلموں کی تشکیل پر زور دیا جبکہ اس وقت مخصوص طرز کی پنجابی فلمیں سینما پر لگ رہی تھیں۔ 1990 میں کام سے بریک لیا اور طویل وقفے کے بعد1998 میں فلم’’کھلونا ‘‘بنائی۔یہ فلم سپرہٹ رہی۔اس کے بعد فلم عاشقی کھیل نہیں،احساس،نکاح،تڑپ،گھرانہ بنائیں جن میں نکاح بہت پسند کی گئی ،لیکن فلم بینوں کا رجحان پنجابی فلموں سے نہیں ہٹ رہا تھا لہذا2000 میں ’’گنڈاسا‘‘ اور’’ گجر‘‘طرز پردوبارہ پنجابی فلمیں بھی بنائیں۔ جن میں ریشماں،کڑیاں شہر دیاں، شیر لاہور جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔شیر لاہور میں میں نے اداکاری بھی کی۔ اب میں ڈرامے بھی بنا رہی ہوں۔

جنگ :کیا’’ہدایت کاری‘‘ سیکھی تھی؟اس میدان میں کیا مشکلات پیش آئیں؟

سنگیتا :ہدایت کاری سیکھی نہیں جاسکتی نہ ہی میں نے باقاعدہ ہدایتکاری سیکھی، مجھ میں اس حوالے سے خداداد صلاحیتیں تھیں۔ لہٰذا میں نے اس فن کو آزمایا اور کام یاب رہی۔ مشکلات بھی بہت پیش آئیں، لیکن میں کبھی مشکلات سے نہیں گھبراتی۔ اس معاملے میں بہت مضبوط ہوں۔ اگر کوئی آرٹسٹ مجھے نخرے دکھاتا ہے،خود کو بہت بڑی چیز سمجھتا ہے تو میں کہتی ہوں ’’ٹھیک ہے، تمہارا اور میرا راستہ مختلف ہے، آگے بڑھو‘‘، خدا حافظ۔‘‘

جنگ: فلموں اور ڈراموں کی ہدایت کاری میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟

سنگیتا: فلم کاایک بڑا پروجیکٹ ہوتا ہے، اس کے وسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ تکنیک بھی اہمیت رکھتی ہے۔تاہم ڈراما ہو یا فلم ہدایت کاری میں کچھ خاص فرق نہیں ۔ہمیں فن کار سےکام ویسا ہی لینا ہوتاہے جو کردار یا کہانی کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔اب اگر آرٹسٹ کے ہی دماغ میں یہ خبط سماجائے کہ میں تو بہت بڑا اداکار ہوں یامیں تو فلموں میں کام کرتا ہوں، تو ظاہر ہے اس کامپلیکس کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ اسے فلم سے باہر کر دیا جائے۔اگر آپ اپنے کام سے مخلص ہیں تو اس سے انصاف کریں گے۔اس طرح کے فن کاروں سے کام لینا تھوڑا مشکل ہوتا ہے لیکن میں جلد یا بدیر انہیں راستے پر لے آتی ہوں اگر ان سے مطمئن ہوں تو۔

جنگ :سنا ہے آپ سیٹ پر بہت سختی کرتی ہیں؟

سنگیتا :میں کام کے معاملے میں بہت سخت واقع ہوئی ہوں مجھے سب سے برا اداکاروں کا وقت پر نہ آنا لگتا ہے ،مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیاخود کو مصروف اداکار دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ سیٹ پر دیر سے آیا جائے،جبکہ یہ تو آپ کی کام سے کمٹمنٹ ہوتی ہے کہ آپ اصولوں کو اپنائیں۔ میں اپنی فلموں میں کام کرنے والوں سے صرف یہ کہتی ہوں وقت پر آئو، دل لگا کر کام کرو، اگر کہیں دماغ کو چھوڑ آئے ہو تو پہلے اُس میں سمائے کام کرلو پھر شوٹنگ میں حصہ لو ،تاکہ جو کام تمہارے دماغ میں پھنسے ہوئے ہیں وہ پرفارمنس پر اثرانداز نہ ہوں۔

جنگ :سب سے زیادہ کس اداکار کے ساتھ کام کرنے میں مشکل پیش آئی ہے؟

سنگیتا: مشکل تو کسی کے ساتھ بھی پیش نہیں آئی سب کو میرے اصولوں کا پتہ ہے اور سب ہی میرے مزاج سے آشنا ہیں۔ آرٹسٹوں میں ریشم بہت اچھی فنکارہ ہیں۔ وہ بے حد تعاون کرتی ہیں اور کام میں بھی بہت سنجیدہ ہوتی ہیں جبکہ میرا تھوڑی بہت سختی کے ساتھ میری باتیں مان لیتی ہیں،ہدایات پر عمل بھی کرتی ہیں ۔ پانچ سال کے وقفے کے بعد فلم ’’کھلونا‘‘ بنائی جس میں میرا نے ہیروئن کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے بہترین پرفارمنس دی تھی۔ وہ فلم سپرہٹ گئی۔ میں نے بہت فلمیں بنائیں۔ میں نے بچوں اور گھرداری کی وجہ سے پانچ سال کا وقفہ لیا تھا ،اس کے بعدجب’’کھلونا‘‘ فلم بنائی تو وہ اداکاروں کے تعاون سے ہی سپرہٹ ہوئی۔

جنگ : فلموں کی کاسٹ میں آپ کا کتنا کردار ہوتا ہے؟

سنگیتا: اپنی فلموں میں اداکار میں ہی کاسٹ کرتی ہوں تاہم کہانی کے کرداروں کو ضرور مدنظر رکھتی ہوں۔45برس اس فیلڈ میں ہوگئے ہیں۔ اب اتنا تجربہ تو ہوگیا ہے کہ کہانی پڑھتے ہی اداکاروں کا سلیکشن کرلیتی ہوں۔ اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سا کردار، کون سا فنکار بہتر طریقے سے کرسکتا ہے۔

جنگ :فلم کی کہانی کا انتخاب کس طرح کرتی ہیں؟
سنگیتا:
جس طرح کسی عمارت کی بنیاد بناتے وقت اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ بنیاد مضبوط ہو، اسی طرح کسی بھی فلم کی کامیابی کے لئے اس کی کہانی بہت اہم ہوتی ہے۔ درحقیقت وہ فلم کی بنیاد ہوتی ہے ،جب بنیاد مضبوط ہوگی تو ظاہر ہے کہ فلم بھی کام یاب ہوگی۔ لہٰذا میں فلم بنانے سے قبل کہانی کے حوالے سے مکمل اطمینان کرتی ہوں یا جب مجھے کہانی پسند آجاتی ہے تو کام کا آغاز کرتی ہوں۔ کہانی اور موسیقی کسی بھی فلم کی جان ہوتی ہے۔

جنگ :موسیقی کا انتخاب بھی آپ ہی کا ہوتا ہے؟

سنگیتا: جی ہاں بالکل،ہدایت کار کو اندازہ ہونا چاہئے کہ کس قسم کی موسیقی کو فلم کا حصہ بنایا جائے ۔میرا فوکس موسیقی کے ساتھ شاعری پر بھی ہوتا ہے۔ فلم سازی کے لئے موسیقی اور شاعری دونوں شعبے اہم ہیں۔ لوگ اچھی موسیقی سننا چاہتے ہیں اور بعض اوقات تو فلمیں محض موسیقی کی ہی بنا پر کامیاب ہوتی ہیں، پڑوسی ملک کی تو اکثر فلمیں موسیقی کے باعث ہی کام یاب ہوئی ہیں۔

جنگ: کچھ ذاتی زندگی کے بارے میں بتائیں،شادی کب ہوئی؟بچے کتنے ہیں؟

سنگیتا: شادی تو بہت پرانی بات ہے اب تو مجھے سال ،دن کچھ بالکل یاد نہیں۔ میری تین بیٹیاں ہیں۔ میں نے ان کی تعلیم اور تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور جلد ہی شادی کرکے ان کو اپنے گھروں کا کر دیا۔ان ہی کی تربیت کے لیے میں نے فلمی دنیا سے وقفہ لیا تھا۔

جنگ: بیٹیوں کا شو بز میں آنے کا رجحان تھا؟

سنگیتا: انہیں شوبز میں آنے کا شوق تھا لیکن میں نے آنے نہیں دیا،گو کہ میری پوری زندگی فن کی دنیا میں بسر ہوئی ہے لیکن میں نے اپنی بیٹیوں کے لیے اس فیلڈ کو مناسب نہیں سمجھا اور ان کو تعلیم سے آراستہ کر کے شادیاں کر دیں۔

جنگ:شو بز آپ کی پہچان ہے پھر آپ نے کیوں مخالفت کی؟

سنگیتا: میں ذرا پرانے خیالات کی ہوں۔میں نہیں سمجھتی کہ یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے اچھی ہے یا انہیں یہاں آنا چاہیے۔بس میرا دل نہ مانا اور میں نے دل کی بات سن لی۔

جنگ:فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے کچھ تجاویز دیں گی؟

سنگیتا: زمانہ بدلتا ہے تو انداز بھی بدل جاتے ہیں۔لہذا جدید تیکنیک اپنانی ہوگی۔یقیناًکام تو بہت اچھا ہو رہا ہے۔نئے اور پرانے فن کار مل کر فلم انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں،تاہم فلم انڈسٹری کے سینئر ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز کو چاہیےکہ نوجوان فن کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ہمارا تعاون انہیں مزید آگے لے کر جائے گا۔

جنگ :نئی نسل کے فن کاروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

سنگیتا: ویسے نئی نسل کے فن کاروں کو کسی پیغام کی ضرورت نہیں۔یہ سکھے سکھائے ہی یہاں آتے ہیں۔تاہم فنکار تو اپنا کام بہتر طریقے سے کررہا ہے۔ ہدایتکاری بھی پُراثر ہے لیکن جدید تیکنیک ضرور اپنانی چاہئے۔ آج کے فنکاروں کو سیکھنے کا پلیٹ فارم ملا ہے۔ہمارے دور میں ایسا نہیں تھا۔وہ اچھا کام کررہے ہیں بس سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ میری فلموں میں کسی بھی فنکار سے اداکاری لینے میں میرا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ میں تو کسی بچے سے بھی اداکاری کرالیتی ہوں۔

نوجوانی میں ماں کا کردار

 ’’میں نے ہمیشہ کردار کی اہمیت کو دیکھتے ہوئےاس میں ڈوب کر اداکاری کی۔کبھی نخرہ نہیں کیا کہ میں تو جوان ہوں بوڑھا کردار کیوں کروں۔والد نے ہم دونوں بہنوں (میرے اور کویتا ) کے لیے پروڈکشن ہاؤس کھولا تھا۔ایک مرتبہ ماضی کی مقبول اداکارہ ’بیگم پارہ‘ میرے والد کے پاس آئیں ،وہ اپنے ساتھ راجندر سنگھ بیدی کے ناول پر مبنی’’ اک چادرمیلی سی‘‘ کاا سکرپٹ بھی ساتھ لائی تھیں۔ انہوں نےا سکرپٹ مجھے دیا۔انہوں نے’’ ماں کا کردار‘‘ خود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔مجھے یہ اسکرپٹ پسند آیااور اسے عکس بند کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا۔ فلم کا نام ’’مٹھی بھر چاول‘‘ رکھا تھا،لیکن فلم کی شوٹنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ بیگم پارہ کو بھارت واپس جانا پڑ گیا جس کے بعد اُن کا کردار یعنی ’ماں کا کردار ‘میں نے خود کیا،جس کی بے حد تعریف کی گئی ،جبکہ میں اُن دنوں جوان تھی۔ اس فلم کو1978ء کا بہترین نگار فلم ایوارڈ دیا گیا تھا اور اسے ہدایت کاری ،اداکاری اور تدوین کاری کے بھی ایوارڈ ملے تھے۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین