• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال، مشکلات اور کام یابیاں

پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال، مشکلات اور کام یابیاں
وزیراعظم، عمران خان ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم‘‘ کے افتتاح کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کررہے ہیں

گزشتہ ماہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا۔ عمران خان کی جماعت نے اقتدار میں آنے سے قبل ’’تبدیلی‘‘ کو ایجنڈا بناتے ہوئے عوام سے متعدد وعدے کیے تھے۔ گرچہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد عمران خان نے پاکستان کو ’’ریاستِ مدینہ‘‘ میں بدلنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ ہمیشہ اس کا موازنہ برطانیہ اور چین سمیت دوسرے غیر اسلامی ممالک سے کرتے رہے۔ ہر چند کہ پاکستان کی غیر مستحکم داخلی صُورتِ حال کے پیشِ نظر ایک سال کا عرصہ کوئی بڑی مدّت نہیں، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ مُلک کی سمت کا تعیّن کرنے کے لیے ایک برس کافی ہوتا ہے۔ چناں چہ عمران خان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان حکومتی حکمتِ عملی کے نہ صرف شدید ناقد تھے، بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر مُلکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا بھی دیا، جس کے نتیجے میں نظامِ مملکت مفلوج ہو گیا، جب کہ وہ اسے اپنی سیاسی جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت روزِ اوّل ہی سے مُلک کی ابتر معاشی صورتِ حال کا ذمّے دار پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ ادوارِ حکومت کو قرار دیتی آ رہی ہے، جب کہ سابقہ حکومتوں کا حصّہ رہنے والے سیاست دان اور ٹیکنو کریٹس خود اس کے قافلے میں شامل ہیں۔ اپنی انتخابی مُہم کے دوران اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے بار ہا سابقہ حُکم رانوں کے لیے ’’چور، ڈاکو اور اور لٹیرے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے کے ساتھ انہیں جیل بھجوانے، لُوٹے گئے اربوں ڈالرز واپس لانے اور ان کی مدد سے مُلک کے تمام قرضے اتارنے کا دعویٰ کیا۔ اس وقت سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف اور سابق صدر، آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن کے دیگر اہم رہنما جیلوں میں ہیں، جب کہ سابق وزیرِ اعظم کی صاحب زادی اور مسلم لیگ (نون) کی نائب صدر، مریم نواز شریف کی گرفتاری پر اُن کی پارٹی نے یہ مؤقف اپنایا کہ عدالت سے ضمانت منظور ہونے کے باوجود انہیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ اپنے والد کی بے گناہی ثابت کرنے اور حکومت کی انتقامی کارروائیوں اور غلط اقدامات کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں نکال رہی تھیں۔

پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال، مشکلات اور کام یابیاں
پی ٹی آئی حکومت کا پہلا برس مکمل ہونے پرمعاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات، فردوس عاشق اعوان میڈیا کو بریفنگ دے رہی ہیں

گرچہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کے جیل میں جانے سے لُوٹی ہوئی رقم تو واپس نہیں آسکی، تاہم عمران خان دوست ممالک سے اربوں ڈالرز کے قرضے اور آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالرز کا بیل آئوٹ پیکیج لینے میں کام یاب ہو گئے، جس سے معیشت کو سہارا ملا اور مُلک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ تاہم، اس مقصد کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ سے قبل حکومت کو اپنی ابتدائی اقتصادی ٹیم کی قربانی دینا پڑی اور اسد عُمر کو وزراتِ خزانہ سے رُخصت ہونے کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے خزانہ کی سربراہی پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس موقعے پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ عمران خان مُلک کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں۔ اب جہاں تک لُوٹی گئی رقم واپس لانے کے حکومتی مؤقف کی بات ہے، تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں بھی پاکستانیوں کے غیر مُلکی بینکوں میں چُھپائے گئے اربوں ڈالرز کا ذکر عام رہا ، لیکن یہ رقوم کبھی واپس نہیں آ سکیں۔ اس ضمن میں فوجی و جمہوری دونوں حکومتیں ہی بے بس و لاچار نظر آئیں۔ البتہ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ غیر مُلکی حکومتوں سے معاہدے کر کے لُوٹی ہوئی رقم ضرور واپس لائے گی اور اس کے نتیجے میں مُلک و قوم کی قسمت بدل جائے گی۔ تاہم، کرپشن کے الزامات پر جیلوں میں قید سیاسی رہنما یہ ماننے پر آمادہ ہی نہیں کہ انہوں نے لوٹ کھسوٹ کا پیسا بیرونِ مُلک بھیجا اور نہ ہی نیب کے وکلاء عدالتوں میں بد عنوانی کے الزامات سچ ثابت کر پا رہے ہیں۔ اسے نیب سمیت دیگر تفتیشی اداروں کی کم زوری قرار دیا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکامی کے بعد ’’این آر او‘‘ کا ذکر کیا جانے لگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جیلوں میں قید اپوزیشن رہنما لُوٹی گئی رقم واپس کریں اور بیرونِ مُلک چلے جائیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، فوّاد چوہدری کے بیانات اکثر سامنے آتے رہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال، مشکلات اور کام یابیاں
وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ملاقات کا ایک منظر

وزیرِ اعظم بننے کے بعد عمران خان پر جب یہ منکشف ہوا کہ مُلک میں ایک فی صد سے بھی کم افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان میں بھی بیش تر تن خواہ دار افراد شامل ہیں، تو انہوں نے فورا معروف چارٹرڈ اکائونٹینٹ اور ٹیکس امور کے ماہر، شبّر زیدی کو ایف بی آر کا مختارِ کُل بنا دیا، جنہوں نے ٹیکس ریونیو کا غیر معمولی ہدف (5,500ارب روپے) حاصل کرنے کے لیے ٹیکسز کی بھر مار کر دی۔ البتہ اس اعتبار سے اسے موجودہ حکومت کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف مُلک میں ٹیکس کلچر متعارف کروا رہی ہے، بلکہ محصولات کے حصول کے لیے اپنی پالیسیز کا نفاذ بھی کر رہی ہے، کیوں کہ کوئی بھی باشعور شہری صاحبِ حیثیت افراد کو ٹیکس کی چُھوٹ دینے کے حق میں نہیں۔ اس ٹیکس پالیسی پر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے عوام کا خون نچوڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں، پی ٹی آئی کی حکومت نے اعلیٰ سطح پر کفایت شعاری اور فضول خرچی کی روک تھام کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کام یاب ہوئی۔ اس ضمن میں سب سے پہلے وزیرِ اعظم ہائوس میں موجود گاڑیوں اور بھینسوں کو فروخت کیا گیا، جب کہ خود عمران خان وزیرِ اعظم ہائوس کی بہ جائے اس کی انیکسی میں قیام پذیر ہیں، جو ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ کفایت شعاری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وہ ایک کمرشل پرواز کے ذریعے امریکا گئے۔ گرچہ یہ بھی ایک مستحسن عمل ہے، لیکن بادی النّظر میں اس کے نتیجے میں قومی ایئر لائنز کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔ اس موقعے پر مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوالات اُٹھائے گئے کہ کیا پی آئی اے کی پروازیں صرف عام پاکستانیوں ہی کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں۔ نیز، اگر امریکا کے لیے پی آئی اے کی فلائٹس نہیں ہیں، تو کیا یہ سلسلہ بحال نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ہماری یہ درخواست بھی ہے کہ اہم قومی ادارے میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا فوری پتا لگایا جائے اور کرپشن میں ملوّث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ پی آئی اے کی پروازوں کے دوران بیش تر نشستیں خالی ہوتی ہیں اور ایک مسافر چار نشستوں پر قبضہ کیے محوِ استراحت ہوتا ہے۔ پی آئی اے کا عملہ نشستیں خالی ہونے کے باوجود یہ کہہ کر سیٹ بُک کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ کوئی خالی نشست نہیں، حالاں کہ 422مسافروں کی گنجایش والے جہاز میں 200سے بھی کم مسافر سوار ہوتے ہیں، جب کہ کرائے آسمان کو چُھو رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جب خود وزیرِ اعظم، وزراء اور پی آئی اے کے اعلیٰ افسران اس ادارے کو نظر انداز کریں گے، تو پھر اس قومی اثاثے کا اللہ ہی حافظ۔ یاد رہے کہ دیگر ایئر لائنز اپنے مسافروں کی تعداد بڑھانے کے لیے نِت نئی ترغیبات دیتی ہیں۔ اسی طرح اس حکومت نے اپنے پہلے سال میں بھاری خسارے کی شکار، پاکستان اسٹیل ملز اور بجلی تقسیم کرنے والے اداروں کی بہتری و اصلاح پر بھی کوئی توجّہ نہیں دی، حالاں کہ عام آدمی پر ٹیکسز کا بوجھ لادنے کے بعد ان ڈوبتے ہوئے اداروں کی نج کاری میں کوئی اَمر مانع نہیں ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال، مشکلات اور کام یابیاں
عمران خان دورۂ پاکستان کے موقعے پر محمدبن سلمان کا استقبال کرتے ہوئے

کسی بھی حکومت کی کام یابی کا اندازہ اُس کی اچھی طرزِ حُکم رانی سے لگایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے سال کے اختتام پر 32شعبہ جات میں کام یابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں خارجہ پالیسی، فاٹا کا انضمام، کرپشن کے خلاف موثٔر مُہم، کفایت شعاری، انصاف کارڈ کا اجراء، انسدادِ غُربت، ماحولیات اور سیّاحت وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، فی الوقت عوام کو ان کاوشوں کے وہ ثمرات نہیں مل سکے، جن کا عمران خان اپنے جلسوں میں بڑے زور و شور سے دعویٰ کرتے تھے۔ عمران خان نے اپنے منشور کو عملی شکل دینے کے لیے 50لاکھ مکانات کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ یہ دونوں کام وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں، کیوں کہ مُلک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پائے دار ترقّی کے لیے حکومت کو ان دونوں منصوبوں کے حوالے سے غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ گرچہ کم آمدنی والے افراد کے لیے ہائوسنگ اسکیم کا افتتاح اور رجسٹریشن کا آغاز ہو چکا ہے، لیکن ناقدین اس سلسلے میں زیادہ پُر امید نہیں۔ وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ 2.9فی صد کی موجودہ شرحِ نمو میں لاکھوں مکانات کی تعمیر پر ایک خطیر رقم خرچ کرنا اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنا کیسے ممکن ہو گا۔ نیز، وظائف کی فراہمی اور انٹرن شپ کے پروگرامز کیسے کام یاب ہوں گے۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم کا ماننا ہے کہ جہدِ مسلسل سے مُلک کو منجھدار سے نکالا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت مُلک میں نہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے، نہ نئے کارخانے لگ رہے ہیں اور نہ ہی بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، تو ایسے میں ایک کروڑ ملازمتیں کیسے پیدا ہوں گی۔ عوام عمران خان کی نیّت پر شک نہیں کرتے، لیکن انہیں حکمتِ عملی کا فقدان ضرور نظر آتا ہے، کیوں کہ حکومت اپنے اوپر ہونے والی ہر قسم کی تنقید کے جواب میں سابقہ حُکم رانوں کی کرپشن کے قصّے سُنانا شروع کر دیتی ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت عوام کو سڑکوں، ٹرانسپورٹ، اسپتالوں، معیاری تعلیمی و تحقیقی اداروں، صنعتوں اور تجارتی سرگرمیوں کی فوری ضرورت ہے اور یہ سب محض غیر مُلکی قرضوں سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے سب سے بڑی کام یابی خارجہ پالیسی کے محاذ پر حاصل کی۔ اب امریکا، پاکستان کا دوست بن چکا ہے اور اب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان کو اچھے لگنے لگے ہیں، جن پر وہ ہر وقت تبریٰ کیا کرتے تھے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اس کی کاوشوں سے 50برس بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کائونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث مباحثہ ہوا۔ گرچہ یہ ایک مشاورتی اجلاس تھا، لیکن اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب، ملیحہ لودھی نے اسے پاکستان کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا۔ نیز، اب امریکی صدر بار بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر رہے ہیں اور عمران خان کو اپنا اچھا دوست قرار دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے اسلامی ممالک سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور قطر تین، تین ارب ڈالرز کے قرضے دے چکے ہیں، جب کہ سعودی عرب نے تین سال تک مؤخر قیمتوں پر پاکستان کو تیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے مصیبت میں کام آنے کی اچھی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، مسئلہ افغانستان عن قریب حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور عمران خان کا یہ مؤقف درست ثابت ہو رہا ہے کہ افغان جنگ ایک غلطی تھی۔ طالبان کسی بھی وقت امریکا سے معاہدہ کر سکتے ہیں، جس کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء شروع ہو جائے گا۔ پاک، چین اقتصادی راہ داری یا سی پیک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پھر چین نے سلامتی کائونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں جس انداز سے پاکستان کی مدد کی، وہ پائے دار پاک، چین دوستی کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح آج اسلامی دنیا کو بھی پاکستان کے مسائل کا ادراک ہو چکا ہے۔ البتہ بھارت سے تعلقات بہتر ہونے کی بہ جائے مزید خراب ہوئے اور اس کا سبب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے بھارتی آئین کے آرٹیکلز، 370اور 35اے کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس موقعے پر عمران خان نے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ وہ خود کشمیریوں کا مقدّمہ دُنیا کے سامنے لڑیں گے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے جنوب ایشیا میں حالات معمول پر لانے کے لیے بھارتی حکومت کو بار ہا مذاکرات کی پیش کش کی۔ تاہم، مودی سرکار اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر کام رہی۔ تاہم، اس کے نتیجے میں حکومت دُنیا کو یہ باور کروانے میں کام یاب رہی کہ پاکستان ایک امن پسند مُلک ہے۔ البتہ بھارتی رویّے سے مایوس ہو کر عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھارت سے مذاکرات نہیں کریں گے، کیوں کہ وہ بات چیت کی پیش کش کو کم زوری سمجھتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کی ایک بڑی کام یابی یہ بھی ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور داخلی و خارجی محاذوں پر دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جب کہ سابقہ ادوارِ حکومت میں ایسا نہ تھا۔ گرچہ اس مفاہمت کی وجہ سے دونوں کے درمیان کبھی تنائو پیدا نہیں ہوا، لیکن اپوزیشن اس پر بہت زیادہ تنقید کرتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہم آہنگی کی وجہ سے حکومت مخالف تحریک اور شر پسند عناصر کام یاب نہیں ہو سکے اور پائے دار ترقّی کے لیے سبھی کو مل کر چلنا ہو گا۔ گرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مستقبل میں بھی چیلنجز درپیش رہیں گے، لیکن اگر نیّت اور سمت درست رہی، تو ان شاء اللہ یہ مشکلات آسان ہو جائیں گی۔

تازہ ترین