• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہیدِ منبر و محراب ’ سیدنا عمر بن خطاب ؓ ‘

مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی

شہیدِ منبر و محراب، مرادِ مصطفیٰﷺ،خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ اسلام کی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت وبہادری، عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات، شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات وترقی اور عروج کا زمانہ تھا، مسلمان اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے ’’مستحق زکوٰۃ ‘‘ کو تلاش کرتے تھے، لیکن انہیں زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضورﷺ نے بارگاہ خداوندی میں جھولی پھیلا کر مانگا تھا، اسی وجہ سے آپ کو ’’مرادِ مصطفیٰؐ‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ ؓ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں، جنہیں دنیا میں ہی حضورﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں، آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں،آپؓ کی صاحب زادی حضرت سیّدہ حفصہؓ کو حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں(ام المؤمنین) ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا۔ان کی ہجرت ’’نصرت الٰہی‘‘ اور ان کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عمرؓ! قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تمہیں شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کر لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو (جاری) قائم کر دیا ہے۔(ترمذی) ایک روز سرکار دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہمراہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ وعمرؓ بھی تھے۔آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی) ایک اور موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں، میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں۔(ترمذی)ایک موقع پر حضورﷺ نے فرمایا: میرے بعد ابو بکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔(مشکوٰۃ)

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے۔آپؓ نے خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں، حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کا طریقہ اختیار کیا۔صحابۂ کرامؓ کی ’’اعلیٰ مشاورتی کونسل‘‘ اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کی ’’جانشینی‘‘ کا اعلان کیا۔ بعض مورخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ نے کہا کہ عمرؓ کا مزاج سخت ہے،اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہو گا۔حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمے داری عائد ہو گی تو یقیناً جلال و جمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور اس خطبے میں فرمایا ! اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔

تواضع کی صفت آپؓ میں بہت زیادہ پائی جاتی تھی باوجود یہ کہ بڑے بڑے بادشاہ آپؓ کے نام اور تذکرے سے کانپ جاتے تھے۔’’خلیفۃ المسلمین ‘‘ بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ قدم رکھتے تھے، صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں۔ تو فرمایا! میرے لیے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے ،جہاں صدیق اکبرؓ کے قدم رہتے ہوں۔

آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جوآپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔

خشیت اور خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں’’آیاتِ قیامت و آخرت‘‘ کے ذکر پر آبدیدہ ہو جاتے۔ زکوٰۃ و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ آخر عمر میں اکثر روزے سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو اٹھ کر گشت کیا کرتے۔جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے، ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے۔ پھر اسے مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ رعایا کو حکم تھاکہ میرے حکام (گورنرز) سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف وخطر مجھے اطلاع دیں، آپ ؓ اپنے مقرر کردہ حکام کی ذرا ذرا سی بات پر گرفت کرتے اور انہیں مقرر کرتے وقت ایک پروانہ لکھ کر دیتے جس پر یہ ہدایات درج ہوتیں! باریک کپڑا نہ پہننا،چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے دفتر کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا، تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے،بے روک ٹوک آجاسکے بیماروں کی عیادت کرنا،جنازوں میں شرکت کرنا۔

حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال رکھتے اور ان کی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکام جاری کرتے،راتوں کو گشت کرتے اور سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل وحالات پوچھتے، دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل وغیرہ سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کر کے لوگوں کے مسائل وشکایات کو دور کرتے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں’’بیت المقدس‘‘ کو فتح کرنے اور ’’قیصر وکسریٰ‘‘ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، آرمینیہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خرسان اور مکران (جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے) سمیت دیگر کئی علاقے فتح کیے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال یعنی خزانے کا محکمہ قائم کیا۔باضابطہ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ ’’جیل خانہ‘‘ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓ نے ہی قائم کیا۔ ’’ سن ہجری‘‘ قائم کیا، جو آج تک جاری ہے۔امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ’’دفترمال‘‘ قائم کیا،پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کے لیے ’’درہ‘‘ کا استعمال کیا، راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا،جا بجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، والنٹریوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ مکۂ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات تعمیر کروائے ، گم شدہ بچوں کی پرورش کے لیے ’’روز ینے‘‘ مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قام کیے، معلمین اور اساتذہ کے مشاہرے مقرر کیے، مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے ’’روزینے‘‘ بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے، تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی، وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں راتوں کوروشنی کا انتظام کیا۔ اس کے علاوہ بھی عوام کے لیے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکام آپ ؓ نے جاری کیے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23ھ کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کےلیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کروائی۔ ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ’’ابو لولو فیروز مجوسی‘‘ جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، اس نے خنجر کے تین وار آپؓ پر کئے جس سے آپؓ کو کافی گہرے زخم آئے۔ آپؓ بے ہوش ہو کر گر گئے، اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہو گئے ۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم درست نہ ہوئے اور پانچویں روز ’’یکم محرم الحرام‘‘ کو 63 برس کی عمر میں ’’جام شہادت ‘‘ نوش کیا۔حضرت صہیبؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور ’’روضہ نبویؐ‘‘ میں خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن ہونے کی ابدی سعادت پائی۔

تازہ ترین