لندن : اسٹیو جانسن
ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو اپنی بیرون ملک مقیم آبادی کو تارکین وطن کے لیےبانڈز کے جھانسے میں لاکر ان کی بچت اور مالیاتی ذرائع کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔
ہر سال ابھرتی ہوئی مارکیٹ والے ممالک میں داخل ہونے والے پانچ سو ارب ڈالر یا اس سے زائد ،سرحد پار ترسیلات زر کرہ ارض کے بیشتر غرباء کے لئے فنڈز کا ایک اہم ذریعہ ہیں،اور گھروں کو بھیجنے سےان کی گھریلو کھپت کو تقویت بخشتے ہیں۔
ترقی کے ماہر ین معاشیات کے مطابق ترسیلات زر کے اقتصادی اثرات ابھی بھی کافی ہوسکتے ہیں، اگر اس کے کچھ حصے کو پیداواری سرمایہ کاری میں لگایا گیا ہو، اور متعدد نقطہ نظروں میں سے تارکین وطن کیلئے بانڈز ایک طریقہ ہیں ،جو اسی مقصد کیلئے تیار کیے گئے ہیں۔
عالمی بینک میں تارکین وطن اور ترسیلات زر کی ٹیم کے سربراہ ماہر اقتصادیات دلیپ رتھا کے مطابق ایل سلواڈور سے بنگلہ دیش تک 20 ممالک سے عالمی بینک کو تارکین وطن ملازمین کو ہدف بناتے ہوئے مالیاتی مصنوعات تیار کرنے میں مدد کیلئے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ تارکین وطن رقم گھر بھیجتے ہیں لیکن وہ ایک نمایاں رقم کی بچت بھی کرتے ہیں،بینک ڈپازٹ میں جس پر سود کی شرح صفر کے قریب ہے،جو کہ گھر بھیجے جانے والی رقم سے کہیںزیادہ ہے۔ڈالرز میں 4 سے 5 فیصد شرح سود کی شرائط پر تارکین وطن بانڈز کی پیشکش ان کی بچتوں کو ترغیب دے سکتی ہے۔
ترسیلات زر کیا ہیں؟
بیرون ملک مقیم ملازمین اور دیگر افراد کی جانب سے اپنے ملک میں اپنے خاندانوں اور دوستوں کو رقم اور اشیاء بھیجی جاتی ہیں۔جیسا کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران عالمی سطح پرترک وطن کے طریقہ کار میں شدت آئی ہے،چنانچہ ترسیلات زر میں اضافہ ہونے سے یہ کئی ممالک کی معیشتوں کا نمایاں حصہ بن گئی ہے۔
اس نقطۂ نظر کے فوائد نظری لحاظ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ابھرتی ہوئی منڈیوں میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری تاریخی کمی کے بعد،متبادل کے طور پر سرحدپار پورٹ فولیو بہاؤ کے مقابلے میں بانڈ فنانسنگ زیادہ مستحکم ہے۔ بینک ڈپازٹ اور بینک قرض،ان سب کو کسی وقت بھی واپس لیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں، دلیپ رتھا نے کہا کہ تارکین وطن ملک کو لاحق خطرات کے بارے میں زیادہ سازگار تاثر رکھتے ہیں اور پیشہ ور سرمایہ کاروں کے مقابلے میں زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنےکے لیے تیار ہیں، جبکہ تارکین وطن کے بنچ مارکس ،10 سالہ ادارہ جاتی ٹریژری پیداوار کی بجائے ڈپازٹ کی شرح ہیں،ممکنہ طور پرحب الوطنی کی وجہ سےرعایت مل جاتی ہے ۔
یہ آئیڈیا نیا نہیں ہے، اسرائیل نے 1951 کے بعد سے تارک وطن بانڈز کے ذریعے 4.32 ارب ڈالرز جمع کیے۔
تاہم،یہ اب تک مالیاتی منڈیوں کا ایک خالی حصہ رہا ہے۔بھارت تارک وطن بانڈز سے فائدہ اٹھانے والا دوسرا بڑا ملک ہے،جس نے 3.11 ارب ڈالر کی رقم اکٹھی کی،تاہم 2000 سے اس نےنئے تارک وطن بانڈز کا اجراء نہیں کیا ہے۔نائیجریا،ایتھوپیا اور نیپال جیسے معاملات نے اس سے کہیں کم اضافہ کیا ۔
چھ ماہ قبل پاکستان نے تارک وطن بانڈز کے اجراء کے ذریعے اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں سے انتہائی مطلوبہ سرمایہ ایک ارب ڈالر جمع کرنے کے لئے ایک بولی شروع کی تھی، تاہم 7.6 فیصد ڈالرسے زائد شرح سود کی پیشکش کے باوجود اب تک محض 31 ملین ڈالر ہی جمع کرسکا ہے۔
دلیپ رتھا نے بانڈزلینے کے فقدان کے حوالے سے فراہمی کے مسائل کی جانب اشارہ کیا،انہوں نے کہا کہ انویسٹمنٹ بینکوں میں جدت طرازی کا بہت زیادہ رجحان نہیں ہے،اور وہ روایتی تجارتی طریقوں پر راضی ہیں۔مزید برآں، تارک وطن بانڈز کی خوردہ بانڈز کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے اور اس طرح پیشہ ور سرمایہ کاروں کے مقابلے میں زیادہ ریگولیشن کی ضرورت ہوتی ہے،جس میں زیادہ خوردہ فروشی اور مارکیٹنگ کے اخراجات ہوتے ہیں۔
تاہم دلیپ رتھا ممکنہ مواقع کے بارے میں پرامید ہیں۔بالخصوص انہیں بھارتی ریاست کیرالا میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی بحالی میں مدد کیلئے بانڈز سے امید ہے،جسے مقامی کرنسی میں درجہ بندی کیا جاسکتا ہے اور اگر کامیابی ہوئی تو دیگر ریاستوں کے لئے بھی راستہ کھل سکتا ہے۔
دلیپ رتھا نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ کچھ کامیاب پائلٹوں کے ساتھ اسے مزید زیرغور لایا جائے گا کیونکہ اس میں بہت زیادہ استعداد ہے۔
تارک وطن بانڈز ترسیلات زر کو سرمایہ کاری کی جانب لانے کا واحد طریقہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی زرعی ترقیاتی ایجنسی برائے بین الاقوامی فنڈ(آئی ایف اے ڈی) نے ترسیلات زر کیلئے اپنی فنانسنگ سہولت کے ذریعہ 60 منصوبے بنائے ہیں۔
آئی ایف اے ڈی کے منصوبے عام طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔اول،تارک وطن بانڈز کی طرح،ان کا مقصد بیرون ملک مقیم ملازمین کی سرمایہ کاری کے ممکنہ سرمائے کو بروئے کارلانا،ان کا اندازہ ہے کہ یہ اپنی آمدنی کا 10 فیصد بچت کرتے ہیں،آمدنی کازیادہ سے زیادہ تقریباََ 15 فیصد ترسیلات زر ہوتا ہے۔
اس کا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ انہیں بچت میںاضافے ، کریڈٹ اور انشورنس تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت سے ترسیلات زر وصول کرنے والوں کو بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں کے توسط سے باضابطہ مالیاتی نظام میں لانا ہے۔
ایف ایف آر کے لئے سینئر ٹیکنکل ماہر پیڈرو ڈی واسکنسیلوس نے کہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک کو ترسیلات زر کی نشان دہی کے بعد بارہ سال قبل ہمیں یہ ادراک ہوا کہ بیرون ملک مقیم افرادمیں نصف سے زائد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔عقلی دلیل بہت سادہ تھی کہ ہم کیسے ان ترسیلات زر پر زیادہ سے بھروسہ کرسکتے ہیں؟
پیڈرو ڈی واسکنسیلوس نے مزید کہا کہ ترسیلات زر وصول کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ ان کے رشتہ داروں نے جو رقم بھیجی ہے اس کے ایک حصہ کی بچت کی جائے جو اس منصوبے کا اہم حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم انہیں بااختیار بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس کے بعد فنڈز کو پیداواری سرمایہ کاری میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر،فلپائن میں ایک اسکیم نے 1260 وصول کنندگان اور 1500 بیرون ملک مقیم ملازمین جو زیادہ تر اٹلی میں تھے،ان کے فنڈز کو استعمال کیا۔جب ڈونرز کی جانب سے گرانٹس میں اضافہ ہوا، اس منصوبے نے زرعی کو آپریٹو جیسے کاموں میں 8 ملین ڈالر کی مدد سے 1300 ملازمتیں پیدا کیں۔
جنگ سے متاثرہ ملک صومالیہ میں تارک وطن بانڈز سے 10 لاکھ ڈالر کی رقم حاصل کرکے 14 کمپنیوں کی تشکیل اور ماہی گیری،زراعت اور فوڈ پراسیسنگ کے شعبوں میں 230 ملازمتیں پیدا کرنے کیلئے مالی اعانت میں مدد ملی۔
اب چیلنج یہ ہے کہ ان پائلٹ منصوبوں کو بڑے پیمانے پر وسعت دی جائے۔
پیڈرو ڈی واسکنسیلوس نے کہا کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی تعداد حیران کن ہے۔یہ واقعی لاکھوں خاندانوں کے لئے زندگی بدلنے کا موقع ہے،2سو ملین افراد ترسیلات زر بھیج رہے ہیں جبکہ 8 سو ملین افراد وصول کرتے ہیں،یہ ایک ارب افراد ہیں جو اپنے ایس ڈی جیز( اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف) کو اپنے ذرائع سے حل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن کے مالی وسائل کو اس طرح بروئے کار لانے سے ایک مثبت سلسلہ پیدا ہوسکتا ہے،جو ملک میں مزدوروں کیلئے روزگار پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے۔