قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اسد عمر نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے اتنا رولا ڈالا کہ حکومت نے جی آئی ڈی سی آرڈیننس واپس لے لیا، اب نتائج خود بھگتیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے گزشتہ 10 سال کے قرضوں کی تفصیلات طلب کر لیں، کمیٹی کو ملک کی معاشی صورتِ حال پر بریفنگ بھی دی گئی۔
اجلاس میں سیکریٹری خزانہ نوید کامران نے کہا کہ گزشتہ مالی سال بجٹ خسارہ ہدف سے 817 ارب روپے زیادہ رہا، سول حکومت چلانے کے اخراجات 48 ارب روپے بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے ٹیکس ہدف پر نظر ثانی آئی ایم ایف کے ساتھ بات کر کے ہی کی جا سکتی ہے۔
کمیٹی نے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس سے متعلق صدارتی آرڈیننس کی تفصیلات بھی طلب کر لیں اور کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ اس معاملے میں کن وزراء کے مفادات تھے۔
سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ 3 ہزار 635 ارب روپے رہا جو مقررہ ہدف سے 817 ارب روپے زیادہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال 317 ارب روپے رہا، اخراجات میں 286 ارب روپے اضافہ ہوا، ایف بی آر کے ٹیکس ہدف پر نظر ثانی آئی ایم ایف کے ساتھ بات کر کے ہی کی جا سکتی ہے۔
سیکریٹری خزانہ نے مزید کہا کہ سول حکومت چلانے کے اخراجات 48 ارب روپے بڑھ گئے ہیں۔کمیٹی نے اخراجات بڑھنے پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی اسد عمر نے کہا کہ 48 ارب روپے کے اخراجات کیسے بڑھ گئے، سسٹم میں کون ہے جو یہ فیصلہ کراتا ہے؟
وزارتٍ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ 28 ارب روپے سول آرمڈ فورسز کو مغربی بارڈر کی مد میں فراہم کیے گئے، سود کی ادائیگی کے اخراجات میں 104 ارب روپے اضافہ ہوا، سول اور ڈیفنس پنشن کے اخراجات 51 ارب روپے بڑھ گئے۔
قائمہ کمیٹی نے جی آئی ڈی سی سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر تفصیلات طلب کر لیں اور کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ اس معاملے میں کن وزراء کے مفادات تھے۔
قائمہ کمیٹی نے مہنگائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی، جو مہنگائی کی صورتِ حال کا جائزہ لے کر اس پر قابو پانے کی سفارشات بھی پیش کرے گی۔