• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
ظہوراسلام سے قبل پوری دنیا اور بالخصوص عرب گھٹاٹوب اندھیروں میں گھم تھی۔ اخلاقیات، عزت، احترام کے رشتے ناپید تھے۔ زور، زبردستی اور طاقت کے اندھے قوانین تھے۔ غریب، نادار، کمزور کو ساری ،ساری زندگی صرف دو وقت کی روٹی پر قید بامشقت کردیا جاتا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں، قتل و غارت، نسلیں تباہ کردیتی تھی، سرکار دوجہاںؐ کی آمد ہوئی، جیسے کائنات میں بہار آگئی ہو، ایسا ضابطہ حیات دیا جو قیامت تک رہنمائی کے ساتھ ساتھ عزت و احترام، عصمت، شفقت، غیرت اور ممتا جیسے لازوال رشتوں میں باندھ دیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کائنات کی بندگی کے بعد والدین کے حقوق اور پھر اولاد، بہن، بھائیوں سمیت قریبی رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں کے حقوق مقرر کئے اور اگر دیکھا جائے تو بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دے کر فرمایا سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس نے دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کرکے جوان کیا اور ان کی شادی کرواکر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوا۔ روز قیامت میرے ساتھ دو انگلیاں کھڑی کرکے کہا، اس طرح قریب ہوگا۔
کہتے ہیں، ایک باپ، بیٹا کرکٹ کھیل رہے تھے۔ باپ، بیٹے کو خوش کرنے کے لئے بار، بار آئوٹ ہوجاتا اور بیٹے کا کیچ بھی ڈراپ کردیتا، لیکن پاس بیٹھی ہوئی ننھی پری کو یہ برداشت نہ ہوا۔ کہنے لگی پاپا آپ کرکٹ کھیلیں، میں آپ کی جیت کے لیے ہاروں گی۔
کیا جذبہ قدرت نے عطا کر رکھا ہے۔گزشتہ برس برطانیہ کے لوکل الیکشن میں چونکہ خود امیدوار تھا، میری دو بیٹیاں اقصیٰ، عائشہ، الیکشن رزلٹ کے دوران اسکول اور ورک کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی، تھکن کی وجہ سے دوسرے روز میں گھر پہنچ کر سو گیا۔ اقصیٰ اسکول سے واپس آئی، اس کو الیکشن نتائج کی کوئی خبر نہ تھی، بس دل ہی دل میں پاپا کی جیت پر خوش تھی اور دونوں بہنوں نے ایک پوسٹر ڈرائنگ کیا، جس میں میری تصویر وکٹری اور مائی ڈیڈی گاٹ موسٹ آف دی ووٹ تحریر کیا۔ My Dady got most of the votes اور پوسٹر میرے سامنے الماری پر چسپاں کرکے میرے جاگنے کا انتظار کرنے لگیں کہ جیت پر پاپا کی خوشی کیسی ہوگی۔ وہ پوسٹر میرے موبائل میں پسندیدہ پوسٹ اور قیمتی اثاثہ ہے، سلام ہے اس سوچ پر کہ میرے پاپا کبھی ہار ہی نہیں سکتے… ماہ محرم کا آغاز ہوچکا ہے، یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی ان عظیم بیٹیوں پر کیا گزرتی ہوگی، جنہیں ظالم بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرکے مسلسل چار ہفتوں سے کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں جو مذہبی جنونی ہیں، جنہوں نے پہلے بھی گجرات، بابری مسجد، درگاہ حضرت بل شریف میں خون کی ہولی کھیلی ہے اور اب دنیا کی نظروں سے اوجھل مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔دنیا سمیت عالمی امن کے دعویدار، اقوام متحدہ آرگنائزیشن آف اسلامک ممالک سمیت سیکڑوں تنظیمیں، آرگنائزیشنز جو کئی برسوں سے کشمیر کے نام پر مستفید ہوتی رہیں، اب جب مشکل وقت آیا تو منہ موڑ لیا، کئی ایک نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر موڑ لیا۔ اس اہم وقت میں صدائے احتجاج بلند کرنے، لوگوں کو متحرک کرنے، تمام وسائل بروئے کار لاکر ہم نے انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرتے ہوئے دنیا کو باور کراناہوگا کہ اس وقت تجارتی تعلقات کو دیکھ کر نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ کشمیریوں کے قومی تشخص اور شناخت کا مسئلہ ہے۔ اس مہذب دنیا میں کوئی بھی طاقت کے نشے میں دھت ہوکر یوں جارحیت نہیں کرسکتی۔ اس بارآخر کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے ہوں گے۔ آج کشمیر کے مرد و جوان یا تو شہید ہوگئے یا جیلوں میں بند ہیں، صرف بچے، خواتین اور جواں سالہ کشمیر کی بیٹیاں سروں پر پٹیاں باندھے، ننھے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے دنیا کے منصفوں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔اور بھارتی بھیڑیئے جو اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہوکر اپنی پسند کی لڑکیاں اٹھاکر لائیں گے اور شادیاں رچائیں گے۔ظہور اسلام سے قبل بھی عرب معاشرے میں اندھیر نگری تھی اور آج عربوں کی بے حسی اور مفادات کے اس دور میں بھی کشمیر کی بیٹیاں اپنی عصمت لٹا بیٹھیں ہیں اور ہم ہیں کہ اس سطح کا احتجاج ابھی تک بلند ہی نہ کرسکے۔کہاں گئی عالمی سطح پر کام کرنے والی سماجی تنظیمیں جو سالہا سال سے بیٹھے بیٹھے کشمیریوں کے فنڈز سے ملٹی ملین اثاثوں کی مالک ہوگئیں۔ شام کے لئے امدادی سامان اور کانوائے تو روانہ کئے، آج کشمیر کی بیٹیاں پکار رہی ہیں۔ایک کانوائے کشمیر کے لئے بھی، سب سماجی تنظیمیں چیرٹیز باہمی متحد ہوکر عالمی مبصرین، میڈیا ٹیم کے ہمراہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے کانوائے کا اعلان کریں۔ اگر تو بھارت نے سب کو جانے دیا تو بہتر ہوگا ان کے لئے امدادی سامان پہنچ جائے گا۔اگر بھارت نے عالمی مبصرین، عالمی میڈیا، امدادی اداروں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہ جانے دیا تو مزید عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہوگا۔ مزید مہذب معاشرے میں عالمی تنہائی کا شکار ہوگا۔ہمیں اب جنگی بنیادوں پر برٹش ریڈ کراس، اقوام متحدہ کے امدادی ادارے، ترکی، روس، چین، امریکہ میں قائم سماجی ادارے اور بالخصوص برطانیہ میں قائم مسلم ہینڈز، ہیلپنگ ہینڈز، کثیر اینڈ ریلیف سمیت سیکڑوں چیرٹیز جو رمضان اور عید قربان پر ٹی وی پر ڈونیشن لیتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی ان معصوم بیٹیوں اور متاثرین کے لئے کانوائے بھیجنے کا اعلان کریں اور ان کشمیر کی بیٹیوں کا مان رکھیں جنہوں نے کشمیر کی آزادی کی خاطر سب کچھ قربان کردیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال اب ابھی یا کبھی نہیں کی پوزیشن میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمیں صورت حال کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
تازہ ترین