• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز ایک مسجد سے کئے جانے والے اعلان سے کلیجہ مسل کر رہ گیا۔ایک صاحب جن کاانتقال ہوا تھا،اُس کے گھروالوں کے پاس کفن وتدفین کیلئے پیسے نہیں تھے،لوگوں سے مدد کی اپیل کی جارہی تھی۔وطن عزیز میں ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مالداروں کو تین سو ارب روپے معاف کر دیئے،اگرچہ وزیر اعظم نے یہ آرڈیننس واپس لے لیا ، لیکن خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کیس جیتنے کی صورت میں اس رقم کے علاوہ ان کمپنیوں سے وصول شدہ دوسو ارب بھی واپس کرنے پڑیں گے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ماضی میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جن کیسز میں حکومت دلچسپی نہیں لیتی ،وہ ہار جاتی ہے۔ امیروں کو اس طرح کے فائدے ہر حکومت میںملتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں امیر ،امیرتر اور غریب ، غربت تر ہوتارہا ہے۔ ۔ایک نجی ائرلائن کے دوست بتارہے تھے کہ 6لاکھ روپے کا ٹکٹ لینےوالے ایک پاکستانی نے مجھے کچھ دس بارہ ممالک کے نام گنوائے،اورمجھے مدعوکرتےہوئےبتایا کہ ان تمام ممالک میں اُن کی رہائش گاہیں ہیں ۔باالفاظ دیگر جہاں ایسے پاکستانی ہیں کہ ملک کے ہر بڑے شہر کے علاوہ بیرون ملک بھی اُن کی کوٹھیاں و بینک بیلنس ہیں وہاں غالب اکثریت کے پاس دووقت کی روٹی و علاج کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ فرعونوں کا یہ دلچسپ عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد جب وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو انہیں دنیا ہی کی طرح مال و اسباب کی ضرورت پیش آئے گی، اس لئے قبروں میں میت کے ساتھ اس کی زندگی کی ہر ضرورت و آسائش کا پورا پورا انتظام کر دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ما ل دار دوشیزائوں کیلئے سامان حُسن مثلاً غازہ، اُبٹن، کنگھی، آئینہ وغیرہ تک رکھ دیا جاتا، جیسے مرنے کے بعد بھی جی اٹھنے پر انہوں نے وہی کچھ کرنا تھا جو دیارِ فانی میں جسمِ ناز و نعم کیلئے کرتے تھے!!

غلہ اور پکا ہوا کھانا بھی رکھ دیا جاتا تھا، پوشاک، سواری، شکار کا سامان غرض یہ کہ اس قدر ساز و سامان کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی گئی ہے۔ فرعونوں کی برآمد شدہ ایسے سامان کی تفصیل ایک با تصویر کتاب موسومہ ’’طوت النخ عامون کی زندگی اور موت‘‘ میں موجود ہے ’’طوت النخ عامون کا خزانہ‘‘ میں بھی دلچسپ معلومات ہیں۔ایلیٹ اسمتھ نے پہلی مرتبہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے، اہرامِ مصر کے نام سے مشہور یہ قبریں دراصل مصر کے بادشاہوں (فراعین) ان کے قرابت داروں ، زرداروں و طاقتوروں کی ہیں، فرعونوں کی لاشوں پر مسالہ لگا کر تابوت میں رکھ دیا جاتا تھا، مصری باشندے لاشوں کو محفوظ بنانے کا فن جانتے تھے، متعدد فرعونوں کی لاشیں آج لندن کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ آج سے 6ہزار سال قبل کے تعمیر شدہ ’’فرعون خوفو‘‘ کے اہرام کے متعلق نپولین کا اندازہ تھا ’’اگر اس ہرم کے پتھروں کو نکالا جائے تو ان پتھروں سے دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی ایسی دیوار بنائی جا سکتی ہے جو پورے ملک فرانس پر محیط ہو گی‘‘اس ہرم میں 25لاکھ پتھر لگائے گئے ہر پتھر کا وزن 50من تھا بعض کا وزن420من بھی تھا، اس زمانے میں مشینیں وغیرہ نہیں تھیں، ہر پتھر کو بنی اسرائیلی’’بیگاری مزدور‘‘ گھسیٹ کر لے جاتے تھے یوں ایک فرعون کی تدفین کے دوران ہزاروں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ’’ اب ہم مسلمانوں کا عقیدہ ظاہر ہے وہ تو نہیں ہے کہ جو فرعونوں کا تھا کہ دوبارہ جی اٹھ کر پھر یہی خزانے کام آئیں گے!! سیم وزر پر سانپ بنے بیٹھےایسے شخص کے متعلق مگر قرآن عظیم میںرب العالمین کا یہ ضرور فرماناہے ’’وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا‘‘مگر ساتھ ہی ساتھ اس خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ یہ ہے ’’ہرگز نہیں، وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جس میں جو کچھ پڑے وہ اس کو توڑ پھوڑ دے‘‘(سورہ ہمزہ)جب جب میں وطن عزیز میں انسانی استحصال کی نت نئی شکلیں دیکھتاہوں تو سوچتا رہ جاہوں کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم بہتر مسلمان و بہتر پاکستانی ہیں۔

16 اپریل 1941 کو 500 جرمن طیاروں نے پوری رات لندن پر بمباری کی ، دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ ہولناک بمباری تھی ،ایسے عالم میں برطانوی وزیراعظم چرچل نے ایک جملہ کہا اور امر ہوگئے ’’اگربرطانوی عوام کو انصاف میسر ہے،تو ہم لڑیں گے،اور جیتیں گے‘‘وہ لڑے اور جیتے ۔آج المیہ کشمیر اس طرح کا سوال لئے ہمارے روبروہے،ہم جو یوم منانے کے عادی ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ایک یوم خوداحتسابی کے نام بھی کرلیں ۔ حضرت اقبال کادرس ہے۔

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

تازہ ترین