• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تغیر و تبدل انسانی معاشرے کا خاصہ اور جزلاینفک ہے۔ سائنسی ترقی کے نتیجے میں نت نئی ایجادات متعارف ہوتی ہیں تو نقش کہن مٹتا چلا جاتا ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح سازو آواز کی دنیا بھی ہرلحظہ بدلتے حالات و واقعات کی حشر سامانیوں سے محفوظ نہیں۔ کتنے ہی آلاتِ غنا دیکھتے ہی دیکھتے فنا ہو گئے اور بہت سے معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ شہنائی کا لفظ تو زندہ و جاوید ہے مگر اسے بجانے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ فن و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ جدید سازوں کی آمد کیساتھ ہی روایتی آلاتِ موسیقی ختم ہوتے جارہے ہیں مثال کے طور پر سندھ کا مقبول ترین ساز ’’بھورینڈو‘‘ اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ چکنی مٹی سے بنے اس سازکی دلفریب آواز خطے کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی۔ شہنائی یوں تو صبح طرب کا ساز ہے مگر شامِ کرب بھی اسکے بغیر اُدھوری معلوم ہوا کرتی تھی۔ شادمانی و انبساط کے علاوہ محرم کے جلوسوں میں بھی شہنائی کی گونج ایک منفرد انداز میں سنائی دیتی تھی مگر اب محض اردو لغت میں ہی شہنائی کا لفظ باقی رہ گیا ہے۔ بلوچستان کا مقبول ترین ساز بین جوہو یا پھر گلگت بلتستان کا چاردھا ،لوک فنکار ہی نہیں علاقائی آلاتِ موسیقی بھی مٹتے جا رہے ہیں۔ سارنگی اور مُرلی بین کا زمانہ گزر گیا، طبلہ اور ہارمونیم زوال پذیر ہیں، ستار جیسے آلاتِ غنا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، رباب کے قدردان نہیں رہے اور یہاں تک کہ بانسری یا فلوٹ کو چند گھرانے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ’’کی بورڈ‘‘ ٹیکنالوجی نے ان سازندوں کی بچی کھچی سانسیں چھین لی ہیں۔ ڈیجیٹل میوزک میں روایتی آلات موسیقی کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے کیونکہ فلوٹ، طبلہ، سارنگی، ستار، شہنائی اور اس جیسے بیشمار آلاتِ غنا کو بجانے کے لئے الگ الگ فن کار درکار ہیں مگر جب ایک ہی شخص کی بورڈ کا بٹن دبا کر یہ سب کام کر سکتا ہو تو پھر بیشمار فنکاروں کے ناز کوئی کیوں اُٹھائے۔ہاں البتہ محولا بالا بیشمار آلات موسیقی کے معدوم ہونے کے باوجود وائلن کی مقبولیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ یہ مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وائلن اطالوی موسیقاروں کی ایجاد ہے اور سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں متعارف کروایا گیا۔ وائلن کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان اور بھارت میں بیشمار فنکاروں نے اپنے آبائی آلات موسیقی کو چھوڑ کر اسے اپنا لیا۔ مثال کے طور پر پرائڈ آف پرفارمنس استاد رئیس احمد خان جن کے والد استاد فتح علی خان بہت بڑے ستارنواز تھے، نے ستار کے بجائے وائلن کو اپنی پہچان بنایا۔ وائلن کی تیاری کے مراحل بھی بہت دلچسپ ہیں۔ یہ ایک مخصوص قسم کے درخت(میپل) کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس میں لگے تار پہلے بھیڑوں کی آنت سے تیار کئے جاتے تھے مگر اب اسٹیل سمیت دیگر دھاتوں سے بنائے جاتے ہیں۔ وائلن تیار کرنے کے بعد اس کی طنابیں کھینچنا بہت مہارت کا کام ہے کیونکہ یہ تاریں ڈھیلی چھوڑ دی جائیں تو مخصوص آواز پیدا نہیں ہوتی۔ اس شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد وائلن کی تاریں بتدریج کھینچتے چلے جاتے ہیں اور ایک موقع آتا ہے جب یہ ساز ان کی من پسند آواز اور سُر بکھیرنے لگتا ہے۔ تب اس وائلن کو بجانے کے لئے موسیقار کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر کبھی آپ نے وائلن کی تاروں سے پھوٹتے سُروں پر غور کیا ہو تو اس میں اِک عجب سا سوز پنہاں ہوتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی داستان رنج والم سنا رہا ہے، زمانے بھر کو بتا رہا ہے کہ اس کیساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ ممکن ہے سر اور تال کی اس ریاضت میں کبھی وائلن کے تار ٹوٹ بھی جاتے ہوں یا پھر کسی مقام پر بعض سُر چھوٹ بھی جاتے ہوں مگر مجموعی طور پر وائلن نوازوں کی گرفت بہت مضبوط محسوس ہوتی ہے۔

میں موسیقی کے اسرار و رموز سے قطعاً نابلد ہوں مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں کہ ہمارے ہاں سازو آواز کا شعبہ عدم توجہی کا شکار ہے یا پھر موسیقی کی صنف زوال پذیر ہے۔ پرانے آلاتِ موسیقی کی جگہ نئے اور جدید آلاتِ غنا نے ضرور لے لی ہے مگر ہدایت کاروں اور موسیقاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث میوزک کی نت نئی جہتیں متعارف ہو رہی ہیں اور انواع و اقسام کے راگ دریافت کئے جا رہے ہیں۔ ہدایت کاروں کا خیال ہے کہ موسیقی تو اچھی ہوتی ہے مگر ہرایک بے وقت کی راگنی بجائے گا تو جھنجھلاہٹ ہوگی۔ اسلئے بہتر ہوگا کہ سب ملکر ایک ہی لے، تان اور سُر کیساتھ گائیں۔ اپنی اپنی ڈفلی بجانے والے رنگ میں بھنگ نہ ڈالیں۔ بڑے بڑے تان سین خاموش ہو گئے، جو چند بچے ہیں انہیں بھی اسٹیج سے دور کر دیا جائے تو پھر محفل خوب جمے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ کلاسیکل موسیقی کا زمانہ گزرگیا۔ اب تو پوپ میوزک اور ری مکس کا دور چل رہا ہے۔ دیپک راگ اور مالکونس کے دن تمام ہوئے۔ راگ جھنجھوٹی کوئی کتنی دیر سنے، اب تو سمراٹوں کے متعارف کردہ راگ درباری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یوں تو موسیقی کا کوئی خاص موسم نہیں ہوتا مگر بہت سے طبلہ سازوں اور ستار نوازوں کو راگ درباری کی دھن پر ایک ہی گیت ’’ابھی نہ جائو‘‘ گاتے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شاید کوئی خاص موسم سایہ فگن ہے۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ فنکار جو وقت کے سانچوں میں ڈھلنے اور نئی حقیقتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، بے روزگاری ان کا مقدربن جاتی ہے، ان پر ساز وآواز کی راہیں ہی مسدود نہیں ہو جاتیں بلکہ زندگی بھی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب زمانہ بدلتا ہے تو ان کے لئے دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں یا تو پرانے آلاتِ موسیقی کی جگہ نئے آلاتِ غنا استعمال کرنے کی عادت ڈال لیں، یا پھر غیر مقبولیت کے کٹھن راستے کا انتخاب کرلیں۔ جبر واختیار کے موسم میں طنابیں کھینچی جا رہی ہیں، فیض احمد فیض نے شاید ایسی ہی مشکل صورتحال کے تناظرمیں کہا تھا:

یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم

یہی ہے جبر یہی اختیار کا موسم

قفس ہے بس میں تمہارے تمہارے بس میں نہیں

چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم

تازہ ترین