• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہُدہُد قومِ سبا کی خبر لے آیا

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہُدہُد حاضر ہو گیا اور کہنے لگا’’ مَیں آپؑ کے لیے ایک ایسی خبر لایا ہوں، جس کا آپؑ کو علم نہیں۔ مَیں آپؑ کے پاس قبیلۂ سبا کی ایک سچّی خبر لایا ہوں۔‘‘ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی، جس کا دارالحکومت مارب، موجودہ یمن کے دارالسّلطنت، صنعاء سے 55میل شمال مشرق میں واقع تھا۔ یہ ایک ہزار سال تک اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ پھر115قبلِ مسیح میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم، حمیر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن اور حضرموت، جب کہ افریقا میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا۔ مشرقی افریقا، ہندوستان، مشرقِ بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت ہوتی تھی، وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی، بلکہ یونانی مؤرخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مال دار قوم کہتے ہیں (تفہیم القرآن۔ ج۔3، ص۔568)۔ ہُدہُد نے کہا’’ اے بادشاہ! مَیں نے وہاں ایک عورت دیکھی ہے، جو اُس قوم کی حکم راں ہے۔

اُس کو ہر طرح کی آسائش اور سامان میّسر ہے۔ اُس کا تخت بھی بڑا عظیم الشّان ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ اور اُس کی قوم اللہ کی بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے۔ ابلیس نے اُن کے اعمال اُن کی نظر میں مرغوب کر رکھے ہیں اور اُنھیں راہِ حق سے روک رکھا ہے۔ پس وہ ہدایت پر نہیں آتے کہ اس اللہ کو سجدہ کریں، جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور جو کچھ تم چُھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو، وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا’’ اب ہم دیکھیں گے کہ تُو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔ میرا یہ خط لے جا کر اُنہیں دے دے، پھر اُن کے پاس سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔‘‘ ہُدہُد نے حضرت سلیمانؑ کے حکم کی فوری تعمیل کی اور خط لے کر ملکۂ سبا کے پاس پہنچا۔ روایت میں ہے کہ ملکۂ سبا، جس کا نام بلقیس تھا، اُس وقت بھی آفتاب کی پوجا کر رہی تھی۔ ہُدہُد خط اُس کے قریب ڈال کر وہاں سے ہٹ گیا۔حدیث میں آتا ہے کہ’’ چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور صرد یعنی لٹورا۔ (مسند احمد، ابو دائود)۔ صرد (لٹورا) کا سَر بڑا، پیٹ سفید اور پیٹھ سبز ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے‘‘ (حاشیہ ابنِ کثیر)۔ملکہ نے جب خط پڑھا، تو متفکّر ہو گئی اور فوری طور پر درباری طلب کر لیے۔ بلقیس کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور اُن میں سے ہر ایک دس ہزار افراد کا نمائندہ تھا(قرطبی)۔ملکہ نے کہا’’ اے اہلِ دربار! میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے، جو فلسطین اور شام کے عظیم فرماں روا، سلیمانؑ کی جانب سے ہے، جسے’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سے شروع کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم سرکشی چھوڑ کر اطاعت اختیار کریں اور مسلمان ہو کر سلیمانؑ کے آگے حاضر ہو جائیں۔اب تم سب مل کر مجھے مشورہ دو، تم جانتے ہو کہ مَیں تمہارے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی۔‘‘ درباریوں نے کہا’’ اے ملکہ! ہم طاقت وَر اور جنگ جُو ہیں، جیسا آپ حکم دیں گی، ویسا ہی کریں گے۔‘‘ ملکہ نے کہا’’ بادشاہ جب کسی مُلک میں گُھس جاتے ہیں، تو اُسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے معزّز لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں، چناں چہ اُن سے لڑنا خلافِ مصلحت ہے۔ مَیں اُن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں؟‘‘ حضرت سلیمانؑ کی طرف تحائف بھیجنے کا مقصد اُن کا امتحان لینا تھا کہ وہ واقعی اللہ کے نبی ہیں یا محض مُلک گیری چاہتے ہیں؟ قصّہ مختصر، بلقیس نے بہت سارے تحائف کے ساتھ اپنے ایلچی کو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں بھیج دیا۔

حضرت سلیمان علیہ السّلام (دوسرا اور آخری حصّہ)
یمن میں ملکۂ سبا سے منسوب محلات

قاصد دربارِ سلیمانی میں

اسرائیلی روایات کے مطابق بلقیس نے جو تحائف بھیجے اُن میں سونے کی اینٹیں، جواہرات، ایک سو غلام، ایک سو کنیزیں اور ملکہ کا ایک خط بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان تحائف کی تفصیلات وحی کے ذریعے پہلے ہی بتا دی تھیں۔ حضرت سلیمانؑ نے جنّات کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہونے والے راستے پر سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش بچھا دیا جائے۔ راستے کے دونوں جانب سونے کے عجیب الخلقت جانور کھڑے کر دیئے جائیں۔ وزراء اور عمالِ سلطنت کی تمام کرسیوں کو سونے کا کر دیا جائے۔ دربار کو ہیرے جواہرات سے مزیّن کیا جائے۔ الغرض، جب بلقیس کے قاصد وہاں پہنچے اور اُنہوں نے یہ سب دیکھا، تو شرمندہ ہوئے اور مرعوب بھی(تفسیرِ قرطبی)۔حضرت سلیمانؑ نے قاصدوں سے کہا’’ کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ مگر دیکھ لو، جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے، وہ اُس سے بہت زیادہ ہے، جو تمہیں دیا ہے۔ لہٰذا، تمہارا تحفہ تمہیں مبارک ہو۔ اب تم اپنے تحائف کے ساتھ واپس جائو اور اپنی ملکہ سے کہنا کہ ہمارا انتظار کرے۔ ہم ایک زبردست لشکر لے کر آئیں گے، جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکے گی اور پھر ہم تم سب کو ذلّت کے ساتھ وہاں سے نکال پھینکیں گے۔‘‘قاصد نے واپس آکر ملکہ کو حضرت سلیمانؑ کا سخت پیغام پہنچایا۔ بلقیس ایک سمجھ دار اور دانا خاتون تھیں۔ وہ سمجھ گئی کہ واقعی یہ اللہ کے نبی ہیں۔ لہٰذا، اُس نے جنگ کی بجائے حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر ہو کر اپنی اطاعت کا یقین دلانے کا فیصلہ کیا اور وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حضرت سلیمانؑ کی طرف روانہ ہو گئی۔

تختِ بلقیس

حضرت سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مطلع فرما دیا کہ بلقیس تمہاری فرماں بردار بن کر حاضر ہو رہی ہے۔ چناں چہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے کہا’’ تم میں سے کون ملکہ کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ مسلمان ہو کر میرے پاس پہنچیں؟‘‘ جِنوں میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا’’ مَیں اُس تخت کو حاضر کر دوں گا، قبل اس کے کہ آپؑ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔ مَیں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔‘‘ پھر جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا، وہ بولا’’ مَیں آپؑ کی پلک جھپکنے سے پہلے اُسے لائے دیتا ہوں۔‘‘ جوں ہی سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، پکار اٹھے’’ یہ سب میرے ربّ کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ مَیں شُکر کرتا ہوں یا ناشُکری۔ شُکرگزار اپنے ہی نفع کے لیے شُکرگزاری کرتا ہے اور جو ناشُکری کرے، تو میرا ربّ بے نیاز اور بزرگ و برتر ہے۔(سورۂ نمل 40، 39، 38)وہ شخص کون تھا، جو پَلک جَھپکنے سے پہلے ہی تخت، دربارِ سلیمانی میں لے آیا؟ مفسرّین کے مطابق، وہ شخص حضرت سلیمانؑ کا کوئی دوست تھا۔ ابنِ اسحاقؒ نے اس کا نام آصف بن برخیا بتایا ہے۔ بعض روایات کے اعتبار سے یہ ان کا خالہ زاد تھا اور یہ واقعہ آصف برخیا کی کرامت تھی۔کہا جاتا ہے کہ اُس تخت کا طول80ہاتھ، عرض40ہاتھ اور اونچائی30ہاتھ تھی۔ اُس میں موتی، سُرخ یاقوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے۔

بلقیس کی محل میں آمد

حضرت سلیمانؑ نے ملکہ کا امتحان لینے کے لیے اُن کے تخت میں کچھ ردّوبدل کروا دیا۔ جب وہ آئیں، تو اُن سے پوچھا’’ کیا تمہارا تخت بھی اسی طرح کا ہے؟‘‘ اُنھوں نے کہا’’ یہ تو گویا ہُو بہو وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا اور ہم فرماں بردار ہو چُکے ہیں‘‘(سورۂ نمل،42)۔بلقیس کے آنے سے پہلے حضرت سلیمانؑ نے ایک ایسی عمارت بنانے کا حکم دیا، جس کا فرش شیشے کا ہو، نیچے پانی جاری ہو۔ پانی میں مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور ہوں۔ حضرت سلیمانؑ اُس عمارت میں اپنے شاہی تخت پر جلوہ افروز تھے اور شیشے کے نیچے سے پانی اپنی پوری آب و تاب سے بہہ رہا تھا، جب کہ اس کے اوپر کا شیشہ نظر نہیں آتا تھا۔بلقیس کو اسی محل میں لایا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’جب اُس نے اُس(فرش) کو دیکھا، تو اُسے پانی کا حوض سمجھا اور(کپڑا ہٹا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ (سلیمانؑ نے) کہا’’ یہ ایسا محل ہے، جس کے (نیچے بھی) شیشے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ بول اٹھی’’ پروردگار! مَیں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی اور (اب) مَیں سلیمانؑ کے ہاتھ پر اللہ ربّ العالمین پر ایمان لاتی ہوں‘‘ (سورۂ نمل۔44)۔ملکۂ سبا کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟ قرآنِ کریم میں اس کی تفصیل نہیں ملتی، تاہم، تفسیری روایات کے مطابق اُن کا حضرت سلیمانؑ سے نکاح ہو گیا تھا۔ ابنِ عساکر کی حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بلقیس، حضرت سلیمانؑ کے نکاح میں آ گئی تھیں اور آپؑ نے اُنھیں اُن کے مُلک واپس بھیج دیا تھا۔ حضرت سلیمانؑ نے یمن میں اُن کے لیے تین محل تعمیر کروائے۔آپؑ وہاں تشریف لے جاتے اور تین روز قیام فرماتے۔‘‘( واللہ اعلم)

بیت المقدِس کی تعمیر اور حضرت سلیمانؑ کی وفات

سورۂ سبا کی آیت 14 میں حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بارے میں فرمایا گیا ہے’’پھر جب ہم نے اُن پر موت کا حکم صادر کر دیا، تو اُن کی خبر جنّات کو کسی نے نہ دی، سوائے گُھن کے کیڑے کے، جو اُن کا عصا کھاتا رہا۔ پس جب (سلیمانؑ) گر پڑے، اُس وقت جِنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے، تو ذلّت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔‘‘ دراصل، جنّات کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کی وفات کے ذریعے اس عقیدے کے فساد کو واضح کر دیا۔ حقیقت یہی ہے کہ غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں۔حضرت سعدیؒ، حضرت ابنِ عباسؓ اور دیگر کئی صحابہ کرامؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کا معمول تھا کہ آپؑ بیت المقدِس میں کبھی ایک، تو کبھی دو سال تنہائی میں بسر کرتے تھے۔ اِسی طرح بعض اوقات وہاں ایک یا دو ماہ تنہا رہتے اور اس دوران اپنا کھانا پینا ساتھ رکھتے۔ حضرت سلیمانؑ نے بیت المقدِس کی تعمیر کا بہت سا کام مکمل کروا لیا تھا، کچھ کام باقی تھا، جو جنّات سرانجام دے رہے تھے۔ جِنوں کی طبیعت میں سرکشی غالب ہے، لیکن وہ آپؑ کے خوف سے کام کرتے رہتے تھے۔ حضرت سلیمانؑ نے دُعا کی تھی کہ’’ اے اللہ! میری موت سال بھر تک جنّات سے مخفی رکھنا تاکہ انسان جان لے کہ جنّات غیب کا علم نہیں رکھتے‘‘(ابنِ کثیر)۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس دوران بیت المقدِس کا کام بھی مکمل ہو جائے، کیوں کہ اگر جنّات کو آپؑ کی وفات کا علم ہو جاتا، تو وہ کام چھوڑ دیتے۔ چناں چہ جب موت کا وقت قریب آیا، تو آپؑ عبادت کے لیے بیت المقدس میں اپنی مخصوص محراب میں داخل ہو گئے۔ یہ محراب، شفّاف شیشے کی بنی ہوئی تھی، جس میں سے باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں۔ آپؑ اپنے معمول کے مطابق عصا کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ وقتِ مقرّرہ پر رُوح قبض کر لی گئی، مگر حضرت سلیمانؑ عصا کے سہارے اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔ جنّات یہی سمجھتے رہے کہ وہ عبادت میں مشغول ہیں، اسی لیے وہ تعمیراتی کام میں لگے رہے، یہاں تک کہ ایک سال گزر گیا اور بیت المقدِس کا بقیہ کام بھی مکمل ہو گیا۔ دیمک نے عصا کی لکڑی کو اندر سے کھا کھا کر کم زور کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ایک دن عصا ٹوٹ گیا۔ اُس وقت جنّات کو آپؑ کی وفات کی خبر ہوئی۔ حضرت بغویؒ نے علمائے تاریخ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی عُمر 53 سال تھی اور اُن کی سلطنت چالیس سال رہی۔ اُنھوں نے تیرہ سال کی عُمر میں سلطنت کا کام سنبھال لیا تھا اور بادشاہت کے چوتھے سال بیت المقدس کی تعمیر شروع کی(مظہری و قرطبی)۔

تازہ ترین