• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیزپاکستان بھی دنیا کا عجیب ملک ہے کہ یہاں آئین کو توڑنے والے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کو راتوں رات بیرون ملک منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا نظام انصاف ہے کہ یہاں طاقتور افراد روپے پیسے اور طاقت کے زور پر چھوٹ جاتے ہیں اور کمزور اور غریب افراد جیلوں میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ ایسے نظام انصاف میں آخر کس طرح ایک مہذب اور جمہوری معاشرہ وجود میں آسکتا ہے؟۔ مشرف کیس میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ اگر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھنا چاہتی ہے تو رکھ لے۔ عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس کے بعد اگر حکومت مشرف کو روکنا چاہتی تو وہ کسی بھی صورت ملک سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ اسکا صاف مطلب ہے کہ حکومت اس سارے معاملے میں پوری طرح شریک ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو ریلیف ملنے پر عدالتی نظام پر پھر سے سوالات اٹھناشروع ہوگئے ہیں؟ اب نظریہ ضرورت کے دوبارہ زندہ ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں؟۔سابق چیف جسٹس کے دور میں ہونے والے تاریخی عدالتی فیصلوں کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا ہے۔ اب کسی ڈکٹیٹر کو ریلیف نہیں مل سکے گا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو بھی اسکا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سابق ڈکٹیٹر کو طے شدہ خاموش معاہدے کے تحت بیرون ملک روانہ کیا گیا۔ پرویز مشرف پربے نظیر بھٹو کیس2010ء اور آئین سے غداری کامقدمہ 2013ء میں قائم ہوا۔ سابق ڈکٹیٹر نے ملک میں دوبار آئین کو توڑا، ایمرجنسی نافذ کی اور انکے دور میں لال مسجد میں بے گناہوں کاقتل عام ہوا۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی ڈالروں کے عوض امریکہ کو بیچا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب مشرف کی بیرون ملک روانگی پر واویلا مچا رہی ہے۔ حالانکہ سابق صدر زرداری کے دور حکومت میں پرویز مشرف 4مرتبہ بیرون ملک گئے۔ آصف زرداری نے ایوان صدر میں براجمان ہونے کیلئے مشرف کو ریڈ کارپٹ گارڈ آف آنر بھی دیا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ پانچ سالہ دور حکومت میں بینظیر بھٹو قتل کیس پربھی بہت زیادہ پیشرفت نہیں دکھائی بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پی پی حکومت بینظیر بھٹو قتل کیس کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اسے سردخانے کی نذر کرنا چاہتی ہے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ پیپلزپارٹی کا اس وقت پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کیخلاف احتجاج مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔حد تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے بھی پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی پر متوقع ردعمل دکھائی نہیں دیا۔ عمران خان کے ممتاز قادری کی پھانسی اور پرویز مشرف کی دبئی روانگی پر بیانات مایوس کن تھے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے بھی ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اسکی خاطر انہیں امریکہ اور یورپی ممالک کی پاکستان سے متعلق لبرل پالیسیوں کولے کر چلنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) دائیں بازوکی جماعت ہے۔ ماضی میں اس نے جماعت اسلامی سے ملکر اسلامی جمہوری اتحاد بھی بنایا تھا۔ مسلم لیگ(ن)کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دینی قوتوں کے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے اسے دائیں بازو کا ووٹ بینک بھی ہمیشہ ملتا رہا ہے۔ مگر اب اس نے اپنی سیکولر پالیسیوں سے خود ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارلی ہے۔
اسی تناظر میں وزیراعظم نواز شریف کے پچھلے دنوں دورہ امریکہ کے بعد ملکی منظر نامہ کچھ تبدیل ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ یہ واضح طور پر لگ رہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی سوچ اور پارٹی پالیسی کو مکمل تبدیل کرچکے ہیں۔ ان کی طرف سے لبرل پاکستان کانعرہ عملی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب اسمبلی میں ایک ایسے نام نہاد خواتین ایکٹ کی منظوری ہے کہ جس سے پورے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ ہولی، دیوالی اور ایسٹر کو ایک سرکاری تہوار کے طور پر منانے کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کروائی گئی ہے۔1973ء کے آئین کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی ہے مگردستور کے مطابق اسمبلیوں میں قرآن وسنت کیخلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کی اجازت نہیں ہے اور اس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک آئینی ادارہ بھی موجود ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں وہ ایسے اقدامات کرکے اپنے لئے مشکلات کو پیدا تو نہیں کررہے؟۔ ممتازحسین قادری کے ہی معاملے کو لے لیجئے! ستم ظریفی یہ ہے کہ ممتازقادری کو امریکی خوشنو دی اور غیر ملکی این جی اوزکے دبائو پر تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈڈیوس کو بغیر کسی قانون اور ضابطے کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت اگر چاہتی تو پھانسی کے اس اقدام کو طول بھی دے سکتی تھی۔ ایسے سینکڑوں کیس موجود ہیں کہ جن میں عدالتوں سے سزائے موت سنائے جانے کے باوجود ملزمان کو عرصہ دراز تک پھانسی نہیں دی گئی۔ ممتاز قادری کے کیس میں علماء کی طرف سے ایک کمیٹی بھی وزیراعظم نوازشریف سے ملنا چاہتی تھی مگر اس کمیٹی کو دانستہ طور پرملاقات کا وقت نہیں دیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اس معاملے میں عجلت پسندی سے کام لیا حالانکہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت میں سلمان تاثیر کیس کے مسئلے پر خاموشی نظر آئی۔ سابق صدرزرداری چونکہ جانتے تھے کہ یہ معاملہ نہایت حساس اور نازک ہے۔ اسلئے پیپلزپارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ممتاز قادری کو پھانسی دینے میں تیزی نہیں دکھائی۔ اگرچہ سلمان تاثیر ان کی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب تھے لیکن اس کے باوجود آصف زرداری اور انکی پارٹی کاطرزعمل اس حوالے سے خاصا محتاط رہا۔اس معاملے میں حکومت اگر دانشمندی کا مظاہرہ کرتی اور علمائے کرام کی سفارشات پر غور کیا جاتا تو بہتر نتیجہ نکل سکتا تھا۔ تحریک انصاف بھی سیکولر ذہنیت رکھنے والے افراد کے گھیرے میں آچکی ہے۔ لگتا ہے عمران خان اب ان کے زیراثر آگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کیخلاف پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے نام نہاد خواتین ایکٹ پر وہ خاموش ہیں۔ پرویز مشرف کے معاملے میں بھی کچھ نہیں کہہ رہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کا کہناہے کہ مشرف کی روانگی پر پیپلز پارٹی کا احتجاج منافقت ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ مشرف کے بیرون ملک جانے کی سب سے زیادہ مخالفت وہ جماعت کررہی ہے جس نے اپنے دور میں این آر او والی دوستی نبھائی۔ سابق صدر کیلئے عام معافی کی استدعا کرنیوالے آج سیاسی ڈرامہ بازی کررہے ہیں۔ اگرچہ وزیرداخلہ نے پیپلزپارٹی کے کردار کے بارے میں بجاارشاد فرمایا لیکن کیاہی بہتر ہوتا کہ وہ یہ بھی بتاتے کہ آخر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کس اندرونی اور بیرونی اشارے پر مشرف کو بیرون ملک جانے دیا ؟اب وزیر داخلہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اگر مشرف واپس نہ آئے تو انہیں انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائیگا؟ اگرحکومت کو واقعی یہ خدشہ تھا کہ مشرف وطن واپس نہیں آئینگے تو آخر انہیں بیرون ملک جانے کیوں دیا گیاہے؟سپریم کورٹ نے یہ ٹھیک کہاہے کہ حکومت ہمارے کندھوں پر بندوق رکھ کر نہ چلائے۔وفاقی حکومت کو سابق ڈکٹیٹر کے حوالے سے دبائو کو خود برداشت کرنا چاہئے تھا۔ انتظامیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ عدلیہ کو انتظامی معاملات میں ملوث نہ کرے۔ ہر معاملے میں عدلیہ کی آڑمیں چھپ جانا دانشمندی اور دلیری نہیں کہلاتا۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کو اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر مسائل کو نمٹانا چاہئے۔ انصاف کا خون ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اگر معاشرے میں عدل وانصاف ملتارہے تو پھر خرابیاں جنم نہیں لیتیں لیکن اگر بے انصافی اور ظلم وجبر عام ہوجائے تو پھر لاوا پھٹتا ہے اور انقلاب جنم لیتا ہے۔ اگر تو پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیساتھ خفیہ ڈیل کے تحت ہوئی ہے تو مستقبل کا منظرنامہ اس بارے میں اصل حقائق جلد واضح کر دیگا۔ پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بارے میں جن لوگوں کایہ خیال ہے کہ وہ ایک ٹارزن کی واپسی ہوگی اور ملکی سیاست میں ان کا آئندہ ایک اہم رول ہوگا وہ درحقیقت محض ایک دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔
تازہ ترین