• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے وقت کی راگنی سمجھیں، صورِ اسرافیل گردانیں یا اسے رنگ میں بھنگ قرار دیں جو بھی سمجھیں میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ملزموں، مجرموں اور قیدیوں کے ساتھ قانون اور تہذیب کے مطابق سلوک کریں، انسان نے صدیوں میں قانون اور تہذیب کو سیکھا ہے وگرنہ ہر انسان کے اندر ایک وحشی بیٹھا ہوا ہے۔ قانون اور تہذیب نے وحشت کو روک رکھا ہے۔ قانون اور تہذیب کی پابندی ہٹ جائے تو یہ معاشرہ پھر سے جنگل بن جائے۔

کوئی اے ٹی ایم چور ہو، خزانے کا ڈاکو ہو یا منی لانڈرنگ کرنے والا، اس کو قانون کے مطابق پھانسی دیں یا تاعمر جیل میں رکھیں وہ آپ کی مرضی ہے مگر کبھی کسی کا کھانا بند، کبھی ملاقاتیں بند، کبھی ایئر کنڈیشنر بند، یہ قانون اور تہذیب کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ تو جوشِ انتقام ظاہر کرتا ہے۔ اَدی کو آدھی رات میں اسپتال سے نکال کر راولپنڈی لانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہی کام قانون کے مطابق صبح بھی ہو سکتا تھا۔ زردار اسپتال داخل ہو یا جیل کے کمرے میں بند، قانون جانے اور اس کا کام، اس میں زبردستی مداخلت کر کے اسے جیل کیوں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ میاں محمد بخش نے کہا تھا ؎

دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، سجناں وی مرجانا

یہی بات انگریزی محاورے "THIS TOO SHALL PASS''میں کہی گئی ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر جو بویا جا رہا ہے وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہ انگریزی محاورہ دراصل فارسی مقولے ’’ایں نیز بگذرد‘‘ کا ترجمہ ہے۔ پنجاب کے پہلے مسلم حکمران ایاز سے یہ قصہ منسوب ہے کہ محمود غزنوی نے ایاز سے پوچھا کہ ایسا کلام بتائو کہ میں خوش ہوں تو اس کلام کو دیکھ کر افسردہ ہو جائوں اور اگر افسردہ ہوں تو اس تحریر کو دیکھ کر خوش ہو جائوں۔ لاہور میں مدفون ایاز نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر فارسی کا یہی مقولہ دہرا دیا ’’ایں نیز بگذرد‘‘ یعنی یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

یاد رکھنا چاہئے کہ 2018ء کے انتخابات نہ تو انقلابِ فرانس کا پرتو تھے اور نہ ہی انہیں انقلابِ ایران کا مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بڑی مشکل سے چند دوسری جماعتوں کی حمایت سے اکثریت ملی مگر کام ایسے کئے جا رہے ہیں جیسے انقلاب آنے پر کئے جاتے ہیں۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ فرانس کی طرح یہاں بھی مخالفوں کو گلوٹین پر چڑھا دیا جائے گا اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی طرح یہاں بھی انقلاب دشمنوں کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ چند نشستوں کی برتری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انقلاب جیسا فری ہینڈ مل گیا ہے، آپ جسے چاہیں اٹھائیں اور جیسے چاہیں بند کر دیں یا پھر جب چاہیں منہ ہی بند کر دیں۔ یہ سب قانون اور تہذیب کی خلاف ورزی ہے۔ ایک عاجز، مجبور اور کمزور و بزدل شہری ہونے کے باوجود میں اپنا ہاتھ کھڑا کرکے کہتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا، اسے روکیں۔ اگر جیل مینوئل سے ہٹ کر کوئی رعایت دی گئی ہے تو وہ بھی غلط ہے اور اگر جیل مینوئل سے روگردانی کرتے ہوئے انہیں کوئی سہولت نہیں دی جا رہی ہے تو وہ اور بھی زیادتی ہے۔

آئیے ذرا تاریخ دیکھ لیں۔ بھٹو کو مارا گیا، پیپلز پارٹی کو طاقت، عدالت اور سیاست تینوں طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی، نتیجہ کیا نکلا؟ پھانسی کے بعد احساسِ محرومی دور کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو 3بار مرکز میں اور 5بار صوبہ سندھ میں حکومت دینا پڑی۔ سندھ کی تالیفِ قلب کیلئے غلام مصطفیٰ جتوئی اور محمد خان جونیجو کو پنجاب سے نشستیں دلا کر وزیراعظم بنانا پڑا اور تو اور ممتاز بھٹو، جام صادق اور علی محمد مہر جیسی کٹھ پتلیوں کو بھی نوازنا پڑا۔ وفاق اور صوبے کے اسی تنازع سے ایم کیو ایم نے جنم لیا اور پھر کئی دہائیاں شہری سندھ میں تشدد و تخریب کی حکمرانی رہی۔ ریاست ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم کو برداشت کرنے پر مجبور تھی اور پیپلز پارٹی کو طاقت میں آنے سے روکنے کیلئے یہ ایک اچھی سیاسی چال بھی تھی۔

فرض کرلیں دو بوڑھے اور بیمار سیاستدانوں میں سے کوئی ایک جیل میں مر گیا تو کیا پھر بھٹو کی طرح ہم احساسِ گناہ مٹانے کے لئے 25سال ان دونوں کی اولادوں کو حکومت دینگے اور اسی گھن چکر میں پھنسے رہیں گے؟ بہتر ہے کہ قانون اور تہذیب کی حدود میں رہیں، نہ کسی کو مظلوم بننے دیں نہ خود کو ظالم کہلوائیں۔ قانون اور تہذیب میں رہیں گے تو نہ آپ پر انگلی اٹھے گی نہ آپ کسی پر انگلی اٹھا سکیں گے۔ باقی دنیا میں بھی سیاستدانوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ جب بھی کسی معاشرے میں قانون اور تہذیب سے ہٹ کر کچھ کیا جاتا ہے تو پھر یہ ریت روایت نیچے تک جاتی ہے۔ آئے روز سیاسی جلسوں پر لاٹھی چارج اور قانون سے ہٹ کر کی جانے والی کارروائیاں معاشرے میں تشدد کو جنم دے رہی ہیں۔ عامر مسیح کی پولیس تشدد سے موت، صلاح الدین ایوبی کی ٹارچر سے وفات اور بوڑھی عورت سے بدتمیزی، یہ وہ واقعات ہیں جو صرف ایک ہفتے کے اندر رونما ہوئے ہیں۔ اگر حکومت میں اعلیٰ ترین عہدیدار قانون اور تہذیب کے لئے اچھی مثالیں قائم کریں تو معاشرے سے بھی یہ برائیاں ختم ہونگی وگرنہ یہ خصلتیں بڑھتی بڑھتی انارکی کو جنم دیں گی۔

اب ذرا رکئے اور سوچئے کہ کل کو اگر پہیہ گھوم گیا اور یہی کچھ آج کے حکمرانوں کے ساتھ کیا گیا تو کیا پھر بھی اسی طرح قبرستان جیسی خاموشی ہو گی؟ انصاف اندھا ضرور ہوتا ہے مگر انصاف پر شفاف عملدرآمد اگر قانون کے مطابق ہو تو اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن اگر اندھا انصاف قانون سے روگردانی کرتے ہوئے لاگو ہو تو وہی ظلم بن جاتا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ بے نظیر بھٹو میں انتقامی جذبہ نہیں تھا وگرنہ بھٹو کی پھانسی کا انتقام لیا جاتا تو معاشرہ تار تار ہو جاتا مگر ہر بار ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اگر کوئی بھی سیاسی تحریک چلی اور اس میں شدت آگئی تو اس بار خدشہ ہے کہ جوشِ انتقام پُرامن سیاست کو بہا لے جائے گا۔ ہر اُس ملک میں جہاں اس طرح کا ردِعمل ہوتا ہے وہاں انارکی پیدا ہوتی ہے، ریاست کمزور ہوتی ہے، عوام اور ادارے باہم دست و گریبان ہوتے ہیں، شہری ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں۔ اس لئے سیاسی مخالفوں کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے تہذیب اور قانون کو مدنظر رکھیں، یہ لکیر عبور کریں گے تو پھر ردعمل بھی بھگتنا پڑے گا۔

تازہ ترین