• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے وفاقی کابینہ کے فیصلے کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے خوش آئند قدم قرار دیا جا رہا ہے جس سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم بننے سے قبل عمران خان دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے سخت مخالف تھے تاہم ان کے فیصلے میں یہ ’’تبدیلی‘‘ ان کی امریکہ سے واپسی پر دیکھنے میں آئی جب انہوں نے یہ ہدایت جاری کی کہ ’’دہری شہریت کے حامل بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت سے متعلق قانون سازی کی جائے‘‘۔

آئینِ پاکستان کی دفعہ 63سی کے تحت کسی دوسری شہریت کا حامل شخص قومی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت رکھنے کا مجاز نہیں جبکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں دہری شہریت کے حامل کئی اراکین اسمبلی اور سینیٹرز کو انتخابی عمل میں حصہ لینے پر نااہل قرار دے چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں دہری شہریت کے حامل شخص کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی عائد نہیں بلکہ آزاد کشمیر اسمبلی میں دہری شہریت کے حامل کشمیریوں کیلئے بھی ایک نشست مختص ہے۔ پاکستان کا آئین بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دہری شہریت کے حصول کی اجازت دیتا ہے اور پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت دہری شہریت رکھنا کوئی جرم نہیں۔ پاکستان کا دنیا کے 16ممالک کے ساتھ ’’دہری شہریت‘‘ کا معاہدہ ہے جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، آئرلینڈ، نیدر لینڈ، سوئٹزر لینڈ، سویڈن، آئس لینڈ، بلجیم، آسٹریلیا، مصر، اردن اور شام شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 88لاکھ سے زائد اوور سیز پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور ان میں تقریباً 20لاکھ افراد دہری شہریت کے حامل ہیں جن کی بڑی تعداد یورپی ممالک، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہری شہریت رکھنے کے باوجود ان ممالک میں پاکستانیوں کو سیاست میں حصہ لینے اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہے جس کی زندہ مثال برطانیہ ہے جہاں کئی پاکستانی نژاد برطانوی شہری پارلیمنٹ کے رکن، لارڈز اور برطانوی حکومت کی کابینہ میں شامل ہیں اور برطانوی حکومت نے ان سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت سے دستبردار ہو جائیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی جانب سے بھیجا گیا 22ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ پاکستانی معیشت کیلئے ’’خونِ رواں‘‘ ہے اور ہر سال ان کے بھیجے گئے زرمبادلہ سے بجٹ خسارہ پورا کیا جاتا ہے، اگر خدانخواستہ یہ ترسیلات زر بند ہو جائیں تو پاکستان چند ماہ میں دیوالیہ ہو جائے۔ اسی طرح بیرونِ ملک مقیم یہی پاکستانی زلزلے اور سیلاب جیسی آفات میں بھی بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ اس لئے دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی وفاداری پر شک کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ہر آنیوالی حکومت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی اہمیت کو تسلیم تو ضرور کرتی ہے مگر آج تک بیرونِ ملک پاکستانی ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہیں۔

دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں اجازت دینے کے فیصلے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ حالیہ فیصلے کے تحت دہری شہریت کے حامل افراد قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے سکیں گے لیکن کامیابی کی صورت میں حلف اٹھانے سے قبل انہیں اپنی دہری شہریت ترک کرنا ہوگی؛ تاہم وفاقی کابینہ کے فیصلے کو آئینی شکل دینے کیلئے موجودہ حکومت کو آئین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی جس کیلئے انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کرنا ہوگی جو پی ٹی آئی کے پاس نہیں۔ حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ موجودہ کشیدہ تعلقات کے پیش نظر اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر حکومت کا ساتھ دیں گی یا نہیں؟ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں، ایسے میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر قانون سازی کے مرحلے پر متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل تیار کریں گی اور بیرونِ ملک مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانی بہت جلد انتخابی عمل میں حصہ لینے کی خوشخبری سنیں گے۔

تازہ ترین