چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدھ کے روز نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں جو باتیں کہیں وہ ایک طرف موجودہ قانونی نظام اور کئی حلقوں میں پائے جانے والے بعض تصورات کے تجزیئے پر مبنی ہیں، دوسری جانب ایسے رہنما خطوط کی نشاندہی بھی کررہی ہیں جو قانونی حلقوں، ارباب حکومت، ارکان پارلیمان اور صاحبان دانش سمیت عوامی حلقوں کی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ ایسے وقت، کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے ای کورٹس کا نظام متعارف ہونے کے بعد ہمارے نظامِ انصاف میں ایسا رُخ سامنے آرہا ہے جس میں مقدمات کے تیزی سے فیصلے کی طرف جانے اور سائلین کو کم وقت میں سستا انصاف مہیا کرنے کا خواب تعبیر آشنا ہو رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر فیصلوں پر عملدرآمد کا شعبہ فعال بنانے کا رجحان نظر آئے۔ ہمارے قانون سازی اور مشاورت کے عمل میں کچھ عرصے سے جاری کمزوریوں پر قابو پالیا جاتا تو شاید عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب سے اس بات کو بدقسمتی قرار نہ دیا جاتا کہ عدالتی نظام کا تین تہی ڈھانچہ متعارف کرانے کے لئے ادارہ جاتی مذاکرات کی تجویز پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ فاضل منصف اعلیٰ کے یہ الفاظ ہر سطح پر سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں کہ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے۔ مذکورہ خطاب میں ان بیشتر امور اور سوالات کا احاطہ کیا گیا ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے مختلف سطحوں پر سامنے آئے یا زیربحث رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بطور ادارہ اس تاثر کو خطرناک سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ احتساب کا عمل جب معاشرے کو بے ضابطگی کی آلودگی سے صاف کرنے کے مشن سے ہٹ کر کوئی اور رخ اختیار کرنے لگے تو وہ احتساب نہیں رہتا۔ اسی لئے منصف اعلیٰ نے سیاسی انجینئرنگ جیسے کسی بھی تاثر کے ازالے کے لئے اقدامات کی ضرورت اجاگر کی ہے۔ جوڈیشیل ایکٹیوازم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’سوموٹو‘‘ پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے۔ جو لوگ کسی خاص مسئلے پر عدالتی کارروائی کے خواہاں ہیں وہ معمول کے مطابق چارہ جوئی کرکے بھی اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم ضروری سمجھیں گے قومی اہمیت کے معاملے میں سوموٹو کا اختیار استعمال کریں گے۔ ازخود نوٹس کے استعمال کے متعلق مسودے کی کی تیاری کا عندیہ دے کر انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس باب میں کچھ معیارات مقرر کئے جارہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میڈیا پر قدغن کو تشویشناک اور معاشرتی تنائو کو جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک جمہوری معاشرے کی لازمی ضرورتوں کی نشاندہی کی ہے۔ جمہوری نظام کا بنیادی عنصر چیک اینڈ بیلنس کا طریق کار ہے جس میں میڈیا کا کردار بے حد اہم ہے۔محدود سیاسی مقاصد کے لئے شہریوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور چیف جسٹس کے خطاب سے ظاہر ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ اس باب میں پوری طرح مستعد ہے۔ دو ججوں کے بارے میں صدر مملکت کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بعض پٹیشنز کے فیصلے تک ریفرنسز پر کارروائی روک دی گئی ہے مگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اس کا فیصلہ میرٹ سے ہٹ کر کریں گے۔ فاضل منصف اعلیٰ کی مذکورہ تقریر نے ہر پاکستانی کو یہ اعتماد دیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ انصاف، میرٹ اور جمہوری نظام کی پاسداری کے لئے پوری طرح چوکس ہے اور انصاف تک عام آدمی کی رسائی آسان بنائی جارہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اصلاح اور درستی کے یہ اقدامات دیوانی عدالتوں سمیت نظامِ انصاف کے تمام اداروں میں تمام سطحوں پر جڑ پکڑتے نظر آئیں۔