لندن (نیوز ڈیسک) سینٹ ہیلنز میں خودکشی کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پورے شہر میں ابتری کا احساس پایا جاتا ہے۔ مقامی اخبار مرر کی رپورٹ کے مطابق سینٹ ہیلنز کافی عرصے سے دماغی صحت کے سنگین بحران سے دوچار ہے اور اسے اب انگلینڈ کا ’’دارالحکومت خودکشی‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ اخبار کے مطابق ملک بھر میں اس ٹائون میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ افراد میں سے تقریباً18افراد خودکشی کرتے ہیں، مقامی افراد اس کا الزام ایمرجنسی مینٹل ہیلتھ سروسز کی قلت اور پورے شہر میں چھائی امیدی کی فضا پر ڈالتے ہیں۔ ایک مقامی بے گھر افراد کے لئے کام کرنے والی این جی او کے منیجر نے بتایا کہ خودکشی ہر ماہ ہمارا ایک فرد کھا جاتی ہے۔ سینٹ ہیلنز جوکہ اپنی رگبی لیگ ٹیم کے باعث کافی شہرت رکھتا ہے، کسی زمانے میں ایک صنعتی شہر ہوا کرتا تھا۔ جس میں شیشہ سازی اور مائننگ کی صنعتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک لمبے بحران کے بعد1992ء میں تقریباً تمام مائنز بند ہوگئیں، لوگوں میں احساس محرومی، موٹاپا کا زیادہ رجحان ہے، تنخواہیں بہت کم ہیں، یہاں کے مکین تقاضا کرتے ہیں کہ لوکل کونسل اور مرکزی حکومت کو اس بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی اس پر زیادہ فنڈز خرچ کئے جانے چاہئیں۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ جب کرنے کو کام نہیں ہے تو ظاہر ہے یہ ایک افسردہ کرنے والی جگہ ہے، دور تک کوئی روشنی نظر نہیں آتی، فنڈز خرچ کرنے کی ضرورت ہے، باہر سے لوگوں کو یہاں لایا جائے، ہوسکتا ہے کہ صورت حال بدلے، ایک خاتون نے بتایا کہ نوکریوں کے مواقعے کی شدید قلت ہے، جاب ملتی ہے تو پارٹ ٹائم یا میلوں دور ویئر ہائوسز میں، مقامی رضاکار نک ڈائیر جو ایک این جی او کے لئے کام کرتا ہے نے بتایا کہ یہاں کے لوگ زندہ رہنے کے لئے بہت زیادہ تگ ودو کرتے ہیں۔ بچوں کے لئے کچھ نہیں ہے۔ لوگ شاپنگ کے لئے دوسرے گائوں جاتے ہیں اور یہاں بے گھر ہونے اور دماغی صحت کے سنگین مسائل موجود ہیں۔