• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلومات کا حصول ہو یا دفتری کام، کمپیوٹر چلانے کی ضروری معلومات انتہائی ناگزیر ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی، کمپیوٹر خواندگی ہے جو کسی بھی سرکاری و نیم سرکاری ، نجی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی شعبے میں آپ کمپیوٹر چلانے کے لیے ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر سسٹم اور انٹرنیٹ کنکشن کے مبادی اصول جانے بغیر خود اعتمادی سے کام نہیں کرسکیں گے۔

ڈیجیٹل لٹریسی میں وسعت

اس وقت ہم ڈیجیٹل اور بائیو میٹرک دورمیں جی رہے ہیں، جہاں ہماری الیکٹرانک اور موبائل ڈیوائسزاینالاگ سے تبدیل ہوکر ڈیجیٹل کے پیراہن میں داخل ہوگئی ہیں۔ تعلیم بھی اب ٹیکنالوجی کے ساتھ نتھی ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 72فیصد طالب علم موبائل یا آن لائن ایجوکیشن سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔ اساتذہ کے لئے بھی ڈیجیٹل خواندگی کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ کمپیوٹر چلانے اور اس کے بنیادی فنکشنز سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں۔

انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز (ICT) سے ہم جہاں انفارمیشن انقلاب سے دوچار ہوئے، وہیں ڈیجیٹل ڈیوائڈ بھی بڑھ گئی۔ کچھ لوگ معلومات کی بے ہنگم ترسیل کے مخالف ہیں اور نصاب کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ کچھ ڈیجیٹل انفارمیشن کے انقلاب میں تفریح تفریح میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

ڈیجیٹل لٹریسی کی ضرورت

انیسویں اور بیسویں صدی میں پیدا ہونے والی نسلوں اور ہزار ویں ڈیجیٹل دنیا میں آنکھ کھولنے والی نسل کے لائف اسٹائل اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے پاس اینالاگ اسکلز تھے مگر ہمارے بچے ڈیجیٹل اسکلز سے آراستہ ہیں۔ ہماری عادت اور اسٹائل کاغذی کتاب تھی جبکہ آج کے ٹیک کڈز اور اسٹوڈنٹس برقی کتاب کے متوالے ہیں۔ ہماری ٹیک جنریشن ڈیجیٹل اسکلز سے آراستہ ہے جو بالترتیب بٹ میپ ایڈیٹنگ، ریکٹر گرافکس، CADD ، ورڈ پروسیسنگ، ڈیجیٹل کمپوزنگ، ڈیجیٹل ویڈیو ایڈیٹنگ، ڈیجیٹل ٹائپ سیٹنگ لاٹیکس (Latex) مارک اَپ لینگویجز، آف سیٹ پرنٹنگ، فوٹو لیتھو گرافی، آٹومیٹڈلوم، کمپیوٹر اسسٹڈ اینی میشن، تھری ڈی ماڈلنگ اور ڈیجیٹل آڈیو ماسٹرنگ جیسی صلاحیتوں کی حامل ہے۔ آگمینٹڈ ریئلٹی اور ہولو گراف الٰہ دین کے جادوئی چراغ بن کر آئے ہیں۔ یورپ اور امریکی ممالک نےڈیجیٹل لٹریسی اور ٹیکنالوجی سے افریقی و ایشیائی براعظموں کا نقشہ بدل دیا ہے۔

ڈیجیٹل لٹریسی اکیسویں صدی کی سائنس

ڈیجیٹل لٹریسی کو اکیسویں صدی کی سائنس قرار دیں تو بیجا نہ ہوگا۔ اس کے بطن سے نکلنے والی خواندگی سے آپ دامن نہیں چھڑا سکتے۔ جب ہم ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کرتے ہیں تو اس کی ضرورت صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ملازمت، تحقیق و تفتیش، معاشرے اور افرادی قوت کے لئے بھی لازمی بن گئی ہے۔ اسی طرح اکیسویں صدی کے ہنر میں آپ فوٹو ویژول لٹریسی، ری پروڈکشن لٹریسی، انفارمیشن لٹریسی اور سوشیو ایموشنل لٹریسی کو کسی طور فراموش نہیں کرسکتے۔ ہر نئی نسل اگلی نسل سے زیادہ ذہین ہوتی ہے کیوں کہ اس کے سامنے ہر آنے والے دور میں کئے گئے کام کی مکمل تاریخ ہوتی ہے جسے دیکھتے ہوئے وہ اپنے لئےراستہ متعین کرتی ہے، اس لئے ڈیجیٹل لٹریسی کے سلسلے کو اپنا کر بدلتے تقاضوںکو پورا کرنا ہوگا۔

ڈیجیٹل لٹریسی اور تعلیم

فیس بک، ٹوئٹر اور لنکڈاِن جیسے سوشل میڈیا کی موجودگی میں ہم ڈیجیٹل لٹریسی کی اہمیت اور اثر پذیری کو فراموش نہیں کرسکتے۔ ڈیجیٹل لٹریسی سے مراد صرف کمپیوٹر چلانا ہی نہیں ہے بلکہ معلومات کے درست ذرائع کی کھوج اور سائبر حملوں سے خود کو بچائے رکھنا بھی اس زمرے میں آتا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل خواندگی کو اساتذہ اور طالب علموں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی کمپیوٹر چلانے کی بنیادی معلومات دینے کے ساتھ سوشل میڈیا کے مختلف استعمالات کی تربیت دے کر اس امرکو یقینی بناتی ہے کہ طالب علم آن لائن اپنے مضامین کو ناقدانہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ پڑھ کر دریافت اور تحقیق کے عمل کو آگے بڑھائیں۔

ڈیجیٹل لٹریسی کے اہم ماخذ

جدید ایجوکیشن ٹیکنالوجی کو کلاس روم میں لانےاور آن لائن تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اہم سائٹس نے تعلیم و تدریس کو درسگاہوں سے نکال کر ہمارے کمرے اور کام کی جگہ تک پھیلا دیا ہے۔ دورِ جدید میں بصیرت و فراست سےانٹرنیٹ کا استعمال ضروری ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں مائیکرو سافٹ کا ڈیجیٹل لٹریسی اسٹینڈرڈکریکیولم کمپیوٹر کی مبادیات کے ساتھ انفارمیشن اور کمیونیکیشن کی بنیادی معلومات سے روشناس کراتے ہوئے آپ کو اپنے ماڈیولز بنانے کے مواقع مہیا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تفریح تفریح میں تعلیم حاصل کرنے کے بیش بہا مواقع آن لائن دستیاب ہیں، جن تک رسائی اگر درجہ بہ درجہ ہماری ضرورت کے مطابق ہو تو ہم تیزی سے علم و دانش کی سیڑھیاں چڑھ سکتے ہیں۔

تازہ ترین