ضلع سجاول کے تاریخی اور قدیمی شہر دڑو میں ایک طرف نامور علمی ، ادبی اور سیاسی شخصیات نے جنم لیا ہے تو دوسری جانب دڑو شہر میں سماجی برائیوں کا بھی ایک تاریخی پس منظر رہا ہے. حالیہ دنوں منشیات کی سرعام فروخت، چوری ، ڈکیتی ، قتل و غارت سمیت بدفعلی اور جنسی زیادتی کے ریکارڈ توڑ واقعات کے بعد دڑو شہر سے تقریباً 60 فیصد باعزت طبقے کے شہریوں نے ہجرت کرکے دیگر بڑے شہروں کا رخ کر لیا ہے، اپنے آبائی شہر دڑو سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی اکثر تعداد پڑھے لکھے ، خاموش مزاج اور نفیس الطبع لوگوں کی ہے جنہوں نے یہاں کی بیہودگی ، فحاشی اور عریانی والی فضا سے نجات حاصل کرنےکی خاطر اپنے آبائی گھر اور شہرکو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خیرباد کہاجب کہ مزیدخاندانوں کی نقل مکانیوں کا امکان ہے ۔
دڑو شہر میں اس حوالے سے صورت حال انتہائی نازک ہے ، یہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات خوف ناک حد تک بڑھ گئے ہیں کہ مقامی شہری اپنے بچوں کی طرف سے عدم و تحفظ کا شکار ہوکر پولیس کی جانب دیکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قانون کے نفاذ اور جرائم کی بیخ کنی کا یہ ادارہ بھی مصلحت پسندی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ان قبیح جرائم کی وجہ سے مقامی باشندوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثال دو سال قبل ہندو نوجوان پرکاش کمار کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی وڈیو وائرل ہونےکے بعد سیکڑوں کی تعداد میں دیگر فحش وڈیوز بنانے کے انکشافات ہوئےتھے۔روزنامہ جنگ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ،ان جرائم کی پشت پر بعض بااثر شخصیات کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں ۔ انہی وجوہات کی بناپر سجاول ضلع سے اب تک نہ تو ایسے جرائم کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکی اور نہ ہی اس جرم کی بیخ کنی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ابتدا میں یہ جرم زیادتی کے واقعات تک ہی محدود تھا لیکن اب اس میں بلیک میلنگ اور قتل کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر واقعات رپور ٹ ہی نہیں ہوتے اور جو ہوتے بھی ہیں تو سائلین کو انصاف نہیں مل پاتا۔ اس کی تازہ مثال ضلع سجاول کے قدیمی شہر دڑو ہے جہاں گزشتہ 15 دنوں میں معصوم بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے چار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں دو معصوم بچیوں سمیت چار بچے ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ ہولناک واقعہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی سات سالہ معصوم بچی کومل بنت بشیر شیخ کے ساتھ پیش آیا۔ معصوم کنول گھر کے باہر گلی میں کھیل رہی تھی کہ ایک شخص فرحان ولد لالو دل اسے زبردستی پکڑ کر قریبی مکان میں لے گیا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ لڑکی کی چیخ و پکارسن کر محلہ کے لوگوں نے پہنچ کر لڑکی کو چھڑایا اور ملزم فرحان دل کو پکڑ کر پولیس کے حوالےکردیا۔ دڑو تھانے میں ملزم کے خلاف مقدمہ بھی درج کروادیا گیا ہے۔
کچھ عرصے قبل پیش آنے والے ایک اور ر واقعے نے سجاول ضلع میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ دڑو شہر میں اقلیتی ہندو برادری کی آٹھ سالہ بچی مسکان کے ساتھ دو درندہ صفت افراد کی زیادتی کے ہولناک واقعے کے بعد علاقے میں خوف ودہشت کی فضا طاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق 15 روز قبل دڑو شہر کے وارڈ نمبر 2 کی رہائشی مسکان بنت دلیپ کمار جو چوتھی جماعت کی طالبہ ہے، شام کے وقت اپنے گھر کے قریب ہی واقع ایک دکان سےسودا خرید کر واپس آرہی تھی کہ انسان نما درندے گونگو ملاح اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر معصوم مسکان کو بہلا پھسلا کر اپنے مکان میں لے گیا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ لڑکی کی چیخ و پکار کی آوازیں سن کر علاقے کے لوگ وہاں جمع ہوگئےجس کے بعد ملزمان معصوم بچی کوچھوڑ کر فرار ہو گئے۔بچی کے والدین کی شکایت پر پولیس نے دونوں ملزمان اسماعیل ملاح اور ممتاز ملاح کو گرفتار بھی کیا لیکن گرفتار ملزمان کی برادری کے لوگوں نے معصوم مسکان کے گھر پر حملہ کرکےاس کے والدین کو مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ بچی کے والد نے مذکورہ حملے کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی لیکن ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جب کہ ایس ایچ او دڑو آفتاب جاگیرانی نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ مسکان کیس کے سلسلے میں پانچ ملزمان گونگو ملاح، جمن ملاح، مارو ملاح، سکندر ملاح اور رشید ملاح کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات کی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں دڑو شہر سے میں ہی اس واقعہ سے چندروز قبل دو لڑکوں 17 سالہ عقیل میمن اور مدرسے کے طالبعلم دس سالہ کمال ولد منٹھار پنہور کو اغوا کرلیا گیا ۔ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد عوامی احتجاج کے بعدمذکورہ مغویوں کو پراسرار طور بازیاب کرواکر معاملے کو دبادیا۔یہ کیس بھی اغوا ، زیادتی اور تشدد کا واقعہ قرار دیا جارہا ہے لیکن والدین اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ مزید کارروائیوں سے گریزاں ہیں۔