• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر ممنوعہ بور اسلحہ لائسنز‘ جسٹس قاضی عیسیٰ کے حکومتی پالیسی پر سوالات

اسلام آباد(زاہد گشکوری)غیر ممنوعہ بور اسلحہ لائسنز‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومتی پالیسی پر سوالات اٹھادیئے۔حکومت ملک میں دو طرح کے قانون چلا رہی ہے‘اگر ہتھیار بطور تحفہ یا پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے بنے ہوں توصدر ، وزیر اعظم‘وزراءاعلیٰ‘22گریڈ افسران اور ججز پی او ایف سےحاصل کیے گئے لائسنس حاصل کرنے کے اہل ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کی نئی اسلحہ لائسنس پالیسی پر اعتراضات اٹھا دیئے ہیں۔حکومت نے 9 کٹیگریز میں شامل آئینی عہدیداران کو پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے حاصل کیے گئے ممنوعہ بور کے ہتھیار بطور تحفہ قبول کرنے کی اجازت دی تھی۔

تفصیلات کے مطابق،سپریم کورٹ کے جج قاضی فائد عیسیٰ نے وفاقی حکومت کی نئی اسلحہ لائسنس پالیسی پر اعتراضات اٹھادیئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ /حکومت ملک میں دوطرح کے قوانین پر عمل درآمد کررہی ہے ،جس سے وہ قانون کی بالادستی کو نظر انداز کررہی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ اس پر واضح شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ نوٹیفکیشن(پالیسی برائے غیر ممنوعہ بور اسلحہ لائسنز)آئینی ضروریات پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ نوٹیفکیشن سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اسلحہ نگرانی کے قوانین بھی نظر انداز کیے گئے ہیں۔

خط میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ خطرناک ، ممنوعہ بور ہتھیاروں کےپھیلائو کی حوصلہ افزائی کرکے حکومت ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کونسا اخلاقی طریقہ کار استعمال کررہی ہے۔حکومت نے 21اگست، 2019کو غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس کے اجرا سے فوری پابندی اٹھا لی تھی۔جس کے بعد وزارت داخلہ نے 26دسمبر،2017کو معطل کیے گئے پچھلے لائسنس بھی بحال کردیئے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 205کے مطابق، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ملازمت کے قواعد و ضوابط ففتھ شیڈول کے مطابق ہی ہیں ۔اس میں تنخواہ ، الائونسزاور مراعات شامل ہیں ، جس کا جج حق دار ہوتا ہے اور اس کا تعین صدر کرتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرارکی جانب سے لکھے گئے خط جو کہ 5ستمبر، 2019کو سرکلر کے ذریعے جاری کیا گیا تھا ، کا جواب دے رہے تھے۔

یہ نوٹیفکیشن وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجا گیا تھا ، جس میں اشخاص کی 9کیٹیگریز کا ذکر تھاجو ممنوعہ بور کے ہتھیار حاصل کرسکتے تھے، جو کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے حاصل کیے گئے ہوں اور جو بطور تحفہ انہیں بھیجے گئے ہوں۔ان میں سے ایک کٹیگری سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی بھی تھی۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن میں اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے کہ ان 9کٹیگریز میں شامل افراد ممنوعہ بور کے ہتھیار کیوں حاصل کرسکتے ہیں۔

آئین کا آرٹیکل 25تمام شہریوں کی برابری کی بات کرتا ہے اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عہدے کی بنیاد پر کسی کو فائدہ پہنچایا جائے۔ججوں کا ضابطہ اخلاق بھی اس طرح کے تحائف قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس نوٹیفکیشن پر متعدد آئینی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔جیسا کہ آئینی عہدیدار ممنوعہ ہتھیار بطور تحفہ کیوں قبول کرے گا؟یہ ہتھیار وہ کس سے وصول کریں گے؟جو یہ تحائف بھجوائے گا ، وہ خود یہ ہتھیار کہاں سے لے گا؟کیا وہ قانونی طور پر یہ ہتھیار حاصل کرے گا یا پھر غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے ہتھیار تحفے کے طور پر دے گا؟نوٹیفکیشن میں آئینی عہدہ رکھنے والے شخص کو بطور تحفہ ممنوعہ بور کے ہتھیار قبول کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

تازہ ترین