واشنگٹن: برینڈن گریلی
امریکا نے اتوار کو چین کی 112 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 15 فیصد مزید ٹیرف کا اضافہ کردیا،تجارتی جنگ کی توسیع میں یہ اقدام ممکنہ طور پر امریکی صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔
جوابی کارروائی میں، چین نے خام تیل سمیت امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا آغاز کردیا۔
اب تک ٹرمپ انتظامیہ کے لگائے گئے محصولات نے پیسیفک بھر میں کاروبار کرنے والی سپلائی چین کے اخراجات بڑھادیئے ہیں۔امریکا میں افراط زر کم ہے،اور درآمد کنندگان کو صارفین پر اپنی لاگت منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا ہورہا ہے۔
تاہم، نئے محصولات صارفین تک پہنچنے والی اشیاء کو متاثر کریں گے جیسا کہ جوتے، ملبوسات وغیرہ جوکہ خزاں میں گھریلو اخراجات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
واشنگٹن میں پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاشیات کیلئے تجارت کی پیروری کرنے والے چاڈ باؤن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترین محصولات کے نفاذ کی خبریں کافی بری ہیں ،تاہم یہ توقع نہ کریں کہ صارفین زیادہ قیمت کے نتائج آج ہی دیکھنا شروع کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹورز کے شیلفس پر سجانے اور آن لائن خوردہ فروشوں کے گوداموں میں رکھنے کیلئے مزید مہنگے کپڑوں اور جوتوں کو بندرگاہوں پر اتارنے میں ابھی تھوڑا وقت لگے گا ۔
چین اور میکسیکو کے خلاف تجارتی دھمکیوں نے گزشتہ سال امریکا میں کاروباری سرمایہ کاری پر دباؤ ڈالا ہے،اور 2019 کی دوسری سہ ماہی میں اس میں کمی آئی ۔ تاہم امریکا کی معیشت کا اہم حصہ، صارفین کے اخراجات یا خریداری،ابھی بھی مستحکم ہیں۔
محکمہ تجارت کی جانب سے جمعہ کو شائع ہونے والے جولائی کے اخراجات کے اعداد وشمار سے مسلسل ترقی ظاہر ہوئی، اگرچہ اسی روز یونیورسٹی آف مشی گن کے جاری کردہ سروے میں اگست میں صارفین کے اعتماد میں کمی ظاہر کی گئی جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے اب تک کی نچلی ترین سطح ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کے سروے کے جواب دہندگان میں تین میں سے ایک نے ٹیرف کو تشویش کی وجہ قرار دیا۔
موجودہ لائحہ عمل کے تحت صارفین کیلئے مصنوعات پر 15 دسمبر کو کھلونوں اور کھیلوں کے سامان سمیت صارفین کی مصنوعات پر محصولات میں مزید توسیع ہوگی۔
اے بی سی چینل کے پروگرام دس ویک پر بات کرتے ہوئے پینسلوینیا سے ریپبلکن سینیٹر پیٹ ٹومی نے امید کا اظہار کیا کہ محصولات چین میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کے تحفظ کیلئے بڑے منصوبے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں چینیوں کو اس علاقے میں معنی خیز انداز میں اپنا رویہ بدلنے کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے، تو پھر ہم محصولات میں کمی کریں گے، اور بعد میں ہم اسے ایک اچھے طریقے سے ختم کریں گے۔اس دوران، ہم نقصان کررہے ہیں۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔
وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ابھی بھی مذاکرات کررہی ہے، تاہم چین کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں مزید نقصان پہنچائے۔انہوں نے کہا کہ مزید تجارتی مذاکرات کیلئے امریکا اس ماہ کے آخر میں چین سے ملاقات کرے گا۔
ماہر اقتصادیات پیٹر موریسی کے تبصرے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ محصولات امریکی صارفین کو زیادہ متاثر نہیں کریں گے کیونکہ چینی کرنسی کی قدر میں کمی آرہی ہے، جو ہمارے درآمد کنندگان کو رعایت دیتی ہے۔ درآمد کنندگان چین کے باہر سپلائرز تلاش کرسکتے ہیں‘‘کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو ری ٹوئٹ کیا۔
چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی سنہوا نے کہا ہے کہ امریکا کو ذمہ دار عالمی طاقت کی طرح برتاؤ کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہئے وہ اسکول کے بدمعاشوں کی طرح کام کرنا چھوڑ دے۔واحد عالمی طاقت کے طور پر اسے اپنی ذمہ داری مناسب طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے اور اس دنیا کو ایک بہتر اور خوشحال مقام بنانے میں وہ دوسرے ممالک کے ساتھ شامل ہو۔صرف اسی طرح امریکا ایک بار پھر عظیم ملک بن سکتا ہے۔