عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ہر سال دُنیا بَھر میں28ستمبر کو ’’انسدادِ سگ گزیدگی کا عالمی دِن‘‘کوئی ایک تھیم منتخب کرکےمنایا جاتا ہے،جس کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق درست معلومات عام کرنا ہے۔امسال کا تھیم"Rabies: Vaccinate to Eliminate"۔یعنی’’ سگ گزیدگی:خاتمے کے لیے مدافعت‘‘ ہے۔
ریبیز کا وائرس دراصل چند مخصوص جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوکر دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم، اس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب پاگل، آوارہ کتّے کا کاٹنا ہے۔ اس مرض کا تعلق "Rhabdoviridae" گروپ سےہے، جو ایک آر این اے وائرس ہے اور بندوق کی گولی (bullet) سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ کتّے، بلی، لومڑی اور گیدڑ کےلعاب میں پایا جاتا ہے، لہٰذا مذکورہ جانور، خاص طور پر کتّا اگر اپنے دانت کسی انسان کی جِلد میں گاڑ دے، تو شگاف یا زخم کے ذریعے ریبیز کے وائرس اُس کے جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ کتّے کے کاٹے کا زخم گہرا ہو، بعض کیسز میں معمولی خراش سے بھی وائرس انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔ تاہم، بیماری کی علامات ظاہر ہونے اور وائرس کی افزایش کا دارومدار کتّے کے لعاب میں پائے جانے والے وائرسز کی تعداد پر ہوتا ہے۔
نیز،جسم کے جس حصّے میں کتّے نےکاٹا ہو، وہ جتنا دماغ کے نزدیک ہوگا، علامات اُتنی ہی جلد ظاہر ہوں گی۔تاہم ،علامات ظاہر ہونے تک وائرسز خاموشی سے افزایشِ نسل میں مصروف رہتے ہیں۔ طبّی اصطلاح میں اس دورانیے کو Incubation Periodکہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر کم سے کم دس دِن اور زیادہ سے زیادہ دو سال تک علامات ظاہرہوجاتی ہیں۔ریبیز کا وائرس جب زخم کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے، تو ابتدائی نشوونما کے بعد متاثرہ جگہ کی عضلاتی بافتوں سے بتدریج اعصابی خلیات(Nerves Cells) تک رسائی حاصل کرکے دماغ اور ہڈی کے گُودے میں سرایت کرجاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے،جہاں وائرس تیزی سے نمو پاتا ہے۔ بعد ازاں،دماغ کے بافتی خلیات(Tissue cells)بُری طرح متاثر ہوجانےکے نتیجے میںدماغی افعال کا توازن برقرار نہیں رہتا۔ابتدا میں مریض کو زخم کی جگہ درد اور خارش محسوس ہوتی ہے، جس کے بعد ظاہر ہونے والی علامات میں سَردرد، ہلکا بخار، کثرت سے رال کا بہنا، چکر آنا، ڈیپریشن، بےچینی ،چڑچڑاپن، غذا نگلنے میں دشواری ،پاگل پن کادورہ اور خاص طور پر پانی سے خوف شامل ہیں۔ اِسی وجہ سےسگ گزیدگی کو ہائیڈرو فوبیا (Hydro phobia)یعنی پانی سے خوف کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔
مرض کو شدّت کے اعتبار سے دو درجوںمیں منقسم کیا جاتاہے۔ کم شدّت والے درجے میں خاموش یا گم صم ہوجانا، لاغرپن، بے تعلقی، کم زوری اور فالج جیسی علامات شامل ہیں،جب کہ زیادہ شدّت والے درجے میں مریض کےطرزِ عمل میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مثلاً پُرتشدد ہوجانا، بدکلامی، بدزبانی کرنا، جنونی کیفیت یاڈیپریشن میں مبتلا رہنا ۔ نیز،پانی دیکھ کر دہشت کا شکار ہوجانے سمیت پاگل پَن کےدورے بھی پڑتے ہیں ۔ مریض کا جسم جھٹکے لینے لگتا ہے،بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اورسانس لینے میں اس حد تک دشواری پیش آتی ہے کہ جان تک جاسکتی ہے۔ مرض کی تشخیص مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی آوارہ کتّا کاٹ لے، تو اُسے پکڑ کر کچھ دِنوں کے لیے زیرِ مشاہدہ رکھتے ہیں، تاکہ کتّے کو خوراک اور پانی دیتے ہوئے یہ دیکھا جاسکے کہ اس میں کوئی منفی اثرات تو پیدا نہیں ہوئے۔ نیز، اس مشاہدے میں کتّے میں پاگل پن کے دوروںکابھی مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
جیسے بے تحاشا بھونکنا، ہر ایک پر کاٹنے کے لیے جھپٹنا یا جسم میں تشنّج کی کیفیات ظاہر ہونا وغیرہ۔ علاوہ ازیں، متاثرہ فرد کے دماغ کے ٹشوز، حرام مغزاور دہنی غدود (Salivary glands)کے نمونے حاصل کرکے بھی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔رہی بات علاج کی ،تو اس کے لیے ماضی میں 14ٹیکوں کا کورس مکمل کروایا جاتا تھا، لیکن اب نئی ویکسین متعارف کروائی گئی ہے، جس کے انجیکشنز کی چند خوراکیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ریبیز سے بچائو کی ویکسین کتّے کے کاٹنے کےفوری بعد لگائی جاتی ہے،تاکہ پاگل پن کے دورے اور دیگر پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جاسکے۔نیز، فوری مدافعت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، تو اس کے لیے تیارشدہ اینٹی باڈیز یعنی ریبیز امیون گلوبیولن (RIG:Rabies immune globulin) کا انجیکشن لگاتے ہیں، جس کی مقدار کا تعین صرف ایک مستند ڈاکٹر ہی کرتا ہے۔اگرخدانخواستہ کسی کو پاگل کتّا یا اس مرض کا سبب بننے والا کوئی دوسرا جانور کاٹ لے، تو سب سے پہلے خراش یا زخم والے حصّے کو جراثیم کُش محلول یا صابن سے10سے15منٹ تک دھوکر صاف کرلیں پھر فوری طور پر قریبی اسپتال، جہاں ریبیز کے علاج اور ویکسی نیشن کی سہولت میسّر ہو ،لے کر جائیں۔
کئی مُمالک میں ریبیز کے خاتمے کے لیے کتّوں کی بھی ویکسی نیشن کی جاتی ہے، تاکہ انسانی جانیں محفوظ رہ سکیں،لہٰذا ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب دے اور ساتھ ہی چھوٹے بڑے شہروں میں ریبیز کنٹرول سینٹرز بھی قائم کیے جائیں،جہاں نہ صرف چوبیس گھنٹے ویکسین دستیاب ہو، بلکہ طبّی عملہ بھی موجود ہو۔ عام طور پر ریبیز کی ویکسی نیشن سرکاری یا پھر نجی اسپتالوں ہی میں کی جاتی ہے، لیکن بدقسمتی سے زیادہ ترسرکاری اسپتالوں، خاص طور پردیہی علاقوں کے اسپتالوں میں ویکسین میسّر نہیں ہوتی، جب کہ نجی اسپتالوں سے علاج عام آدمی کے بس کی بات نہیں، لہٰذا محکمۂ صحت کی جانب سےخاص طور پر ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ افراد، جنہوں نے گھروں میں شوقیہ طور پر یا پھر حفاظت کے لیے کتّے پال رکھے ہیں،تو ان کی باقاعدگی سے ویکسی نیشن بھی کروائیں۔
چڑیا گھروں میں کام کرنے والوں میں بھی ریبیز کا خطرہ رہتا ہے، توحفاظتی اقدامات کے طور پر ان تمام افراد کی ویکسی نیشن لازمی اور مفت کروائی جائے۔ علاوہ ازیں، والدین پر بھی یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو اُن میدانوں، گلی، محلّوں میں جہاں کتّوں کے کاٹنے کا خطرہ ہو، بغیر نگرانی کھیلنے دیں، نہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے اکیلے جانے دیں۔اس ضمن میں ماضی میں بلدیات کے تحت ہونے والی ’’کتّا مار مہمات‘‘کافی نتیجہ خیز ثابت ہوتی رہیں۔لیکن اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ بلدیات اپنی بنیادی ذمّےداریوں کی ادائیگی ہی سے بری الذمّہ ہیں، کجا کہ کتّامار مہم کا آغاز کیا جائے۔ شہروں، دیہات میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے اور شہری’’اپنی مدد آپ‘‘ہی کے تحت بچاؤ کا کچھ سامان کررہے ہیں۔
(مضمون نگار، فیڈرل یونی ورسٹی آف آرٹس، سائنس ایند ٹیکنالوجی، کراچی کے شعبۂ مائیکرو بائیولوجی کے سابق چیئرمین ہیں)