یہ دونوں درست ہیں کیونکہ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ اُتَّم (الف پر پیش اور تے پر تشدید) اصلاً سنسکرت کا لفظ ہے اور وہیں سے اردو اور ہندی میں آیا ہے ۔ اُتَّم کے ایک معنی ہیں نہایت عمدہ، سب سے اعلیٰ ۔ دوسرے معنی ہیں نسب کے لحاظ سے بہتر، شریف اور خاندانی ۔ اسی لیے اردو میں کہاوت ہے اُتّم سے اُتّم ملے ،ملے نیِچ سے نیِچ، پانی سے پانی ملے اور ملے کیِچ سے کیِچ۔ نیِچ یعنی کمین، گھٹیا۔ کیِچ یعنی کیچڑ ۔گویا شریف لوگ شریفوں کے ساتھ اور گھٹیا لوگ کمینوں کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
اردو میں ایک اور کہاوت میں بھی اُتّم کا لفظ آتا ہے اور وہ کہاوت کچھ یوں مشہور ہے: اُتّم کھیتی، مدّھم بیوپار،نِکھد نوکری ، بھیک نِدان۔ یعنی کھیتی باڑی اُتّم (سب سے اچھا ) پیشہ ہے، بیوپار ( کاروبار)اس سے مدّھم یعنی کچھ ہلکا ہے، نوکری نکھد( بدتر) ہے اور بھیک نِدان (یعنی سب سے پیچھے) ہے۔(مدّھم کے ایک معنی ’’درمیانی ‘‘کے بھی ہیں) ۔
جبکہ اَتَم(الف اور تے پر زبر) عربی کا لفظ ہے اورجان ٹی پلیٹس کی لغت کے مطابق اس کے عربی املا میں میم پر تشدید ہے اگر چہ اردو میں اَتَم کے میم پرتشدید شاید ہی کوئی بولتا ہو۔ اَتَم کے ایک معنی ہیں زیادہ اور دوسرے معنی ہیںتمام ، مکمل، پورا۔ اسی لیے اردو میں بدرجۂ اَتَم کی ترکیب بھی مستعمل ہے، بدرجۂ اَتَم یعنی انتہائی درجے میں، مکمل طور پر، مثال کے طور پر ’’فلاں صاحب میں یہ صفت بدرجۂ اَتَم پائی جاتی ہے‘‘۔