• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائرہ پیٹر کا صوفی تبسم کی فارسی غزلوں پر مبنی البم ریلیز

سائرہ پیٹر کا صوفی تبسم کی فارسی غزلوں پر مبنی البم ریلیز


آواز کی دُنیا کی جادو گرنی، سروں کی ملکہ، بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ سائرہ پیٹر نے مشہور شاعر صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی فارسی غزلوں پر مبنی البم برطانیہ اور پاکستان میں ریلیز کردیا۔

اس البم میں 8 غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ تعارفی تقریب لندن اور پاکستان میں ہوگی، جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ غزلوں کی وڈیوز بھی بنائی گئی ہیں۔

سائرہ پیٹر نے لندن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فارسی غزل گائیکی عربی ثقافت سے سفر کر تے ہوئے فارسی میں مغلوں کے درباروں سے برصغیر میں پہنچی تھی۔ اس وقت غزل گائیکی کو محض عورتوں کیساتھ مردوں کی عشقیہ داستانوں کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر پاکستان کے ادبی و ثقافتی حلقوں نے غزل کو سماجی مسائل کی ترجمانی میں ڈھال کر اس کو وسیع مقام بخشا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے جب صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے عظیم فارسی کلام کو محض فائلوں کی گرد میں پڑا دیکھا تو سوچا کہ میں اس گوہر نایاب کو پبلک میں ضرور لاؤں گی۔ اس سلسلے میں میں نے مذکورہ کلام سے 8 غزلوں کا انتخاب کیا اور ان کی پوزیشنیں اور ارینجمنٹس کیں، پھر اپنی ایرانی استاد کی مدد سے ان کے لب و لہجے کو درست کیا۔

سائرہ پیٹر کا کہنا ہے کہ میں نے صُوفیانہ گائیکی میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد کلاسیکی موسیقی میں آواز کا جادو جگایا اور اب میری ساری توجہ غزل گائیکی کی جانب ہے۔ اب میں نے فارسی غزلوں کے اپنے پہلے البم کے لیے صوفی تبسم کے انمول کلام کو چنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فارسی اپنے لفظی ذخیروں، ترکیبی خصوصیت، ردھم کی صلاحیتوں اور دیگر لِسانی خوبیوں کی بدولت دنیا کی عظیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اردو کی رگِ حیات فارسی کے چشمے سے ہمیشہ سیراب ہوتی رہی ہے۔

صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم قادر الکلام شاعر تھے، ان کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے، وہ محض اردو کے شاعر ہی نہیں بلکہ پنجابی اور فارسی کے بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ان کے شعری ذوق کو فارسی سے خاص انسیت تھی۔ صُوفی تبسم کی شاعری میں محبت کے جذبات کی سچی اور صحیح ترجمانی ملتی ہے۔ ان کے لکھے ملی نغمے آج بھی 1965 والا جذبہ سموئے ہوئے ہیں، ’’یہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے، میریا ڈھول سپاہیا تینوں ربّ دیاں رکھاں‘ ان ملی ترانوں کو نور جہاں نے اپنی جادو بھری آواز میں کچھ اس انداز میں گایا کہ امر کردیا۔

ان کے فلمی گیتوں میں بھی ادبی رنگ نمایاں رہا۔ صُوفی تبسم نے غالب کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ بھی کیا، جوکہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ صُوفی تبسم نے امیر خسرو کے فارسی کلام کا بھی منظوم ترجمہ کیا۔

انہوں نے غالب کی اردو غزلوں کا پنجابی میں ترجمہ کیا، جن میں سے ایک غزل ممتاز گائیک غلام علی نے ’’میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘ گا کر خوب شہرت حاصل کی۔

سائرہ پیٹر نے مزید بتایا کہ سنجیدہ گائیکی کا دور ایک مرتبہ پھر واپس لوٹ رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ بامقصد موسیقی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔

تازہ ترین