• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اکنامکس ایک پرفارمنس ہوتی ہے مگر سیاست کھیلنا پڑتی ہے !‘‘ یہ جملہ وہاں بڑے بڑے سیاستدانوں کے لب پر تھا جہاں روئے زمین کی سب سے بڑی سیاست بستی ہے اور یہ جملہ تھا بھی ان سیاستدانوں کی زبان پر جن کے ہاتھوں میں عنان اقتدا تھی بس حرص و ہوس والے دل و دماغ اور پل پل پھسلنے والی زبان ہی قابو میں نہ تھی۔

ان سب فرمودات کے حامل بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے وزراء اور ساتھی تھے۔ یہ سب سیخ پا اس لئے تھے جب سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے کے تمام راستے اخلاقیات اور سیاسیات نے بند کردیئے اور سونیا گاندھی نے منموہن کو وزیراعظم نامزد کردیا،سونیا کا تجربہ کامیاب رہااوکسفرڈ اور کیمبرج سے معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے والے سابق گورنر بھارتیہ ریژرو بینک اور نرسیما راؤ کے وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ 2004 تا 2014 مسلسل دو بار وزیراعظم رہے جنہیں بھارت کی معاشی بہتری کا روح رواں قرار دیا جاتا ہے۔ پس یہ ثابت ہوا اکنامکس کی پرفارمنس ہو تو سیاست گر کھیل بھی ٹھہرے تو ازخود آسان ہوجاتی ہے !

ناچیز کا اصل موضوع تو کچھ اور ہے لیکن مطلوب تھا کہ، قارئین ابتدائی پیراگراف سے کچھ سوال خود نکالیں اور جواب بھی دریافت کریں۔ ( اگر مناسب سمجھیں!)

چلیں مان بھی لیں کہ سیاست کھیلنا پڑتی ہے مگر کھیلنے کیلئے بھی کوئی میدان تو بہرحال چاہئے۔ ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کوئی کھیل جیتنا تو درکنار کھیلا بھی نہیں جاسکتا۔

وہ جو کھیل کی بات کرتے تھے پھر نریندر مودی ان سے ایسا کھیلا کہ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں اپنے ہی اینٹی منموہن ’’وہ کھلاڑی ‘‘ نشان عبرت بن گئے جیسے پیپلز پارٹی کے روایتی جیالے 2013 اور 2018 میں نیست و نابود ہوئے۔

درحقیقت پرفارمنس ہی کھیل ہے اور کھیل پرفارمنس ! مثال کے طور پر اکنامکس میں پرفارم کریں تو خارجہ امور میں کھیلا جاسکتا ہے جیسے پہلے کھیلتے ہو ئے بلے باز پرفارم کرلیں تو بعد میں باؤلرز کھیل بنا سکتے ہیں۔ فراہمی انصاف میں پرفارم کریں تو ختم ہونے کے بعد قبریں نہیں دلوں میں آستانے تعمیر ہوں گے۔ اور ہاں! امور صحت اور امور تعلیم میں پرفارم کرلیں تو حکومت میں ہوں، نہ ہوں، میں آف دی میچ ضرور ہوں گے !

اہل حکومت کو کھیل والا یہ سوال زہرلگتا ہے یا زہر، اپنی موجودہ حکومت ہی نہیں پہلی حکومتوں کا بھی یہی عالم تھا۔ جب یہ کہا جاتاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی وزیرِ تعلیم یا وزیر صحت محض 25 کلومیٹر کے کرتا دھرتا ہیں تو سابق وفاقی وزراء انجینئر بلیغ الرحمٰن (تعلیم) اور سائرہ افضل تارڑ (سپیکرز سروسز) کو بہت برا لگتا تھاانجینئر صاحب تو پھر بھی معاف کردیتے مگر سائرہ تارڑ صاحبہ کسی نہ کسی طرح غصہ نکال لیتیں۔ خیر اب وہ زمانہ بھی نہیں کہ جناب قبلہ شفقت محمود کو کچھ کہیں۔

رہی بات صحت کی، تو اس کیلئے حکومت کو کوئی منتخب بندہ ہی نہیں ملا ایک ٹیکنو کریٹ مشیر سے کام چلانا پڑ رہا ہے، ٹیکنوکریٹس ہی سے کام لینا ہو تو وزیر کے زیر سایہ بھی لیا جاسکتا ہے۔

ڈی جی ہیلتھ ہی بدل کر دیکھ لو بھئی جہاں ’’تبدیلی‘‘ ناگزیر ہو وہاں تو کرم فرمائیے، ترجمان ہیلتھ سروسز کہتے ہیں ’’ ایک انار سو بیمار‘‘ ایک تنہا ڈی جی ہیلتھ کیسے فارمیسی اور نرسنگ کونسلوں ڈریپ، پی ایم ڈی سی وغیرہ کو دیکھے ؟ ارے بھئی کیا کثرت اولاد معاملہ ہے یا مسئلہ ؟ کیا ڈرگ ایکٹ کیا فارمیسی کونسل کو ایک فارماسسٹ صدر دینا جرم ہے، ڈرگ ایکٹ اپنی جگہ درست سہی مگر تفویض کار میں بہتری گناہ ہے ؟ کیا ڈرگ ایکٹ 1967 اور 1976 کے بعد 2012 تک ماہر ادویہ، ماہر صحت اور امور منصوبہ بندی کی تمام تر نزاکتیں جدتیں اور ضرورتیں فی زمانہ ہوگئیں اور کبھی آپ ممبران کونسل یا ڈریپ وغیرہ اسے گاہے،گاہے دیکھنے کا تکلف کرتے ہیں ؟

کیا فارمیسی ٹیکنیشن کو ایکٹ میں جگہ عنایت فرما کر اس کا سرکاری و غیرسرکاری یا پیشہ ورانہ رول متعین کرلیا گیا ؟ 2012والا ایکٹ پیپلزپارٹی دور حکومت میں آیا ،آپ کی ’’تبدیلی‘‘ ؟ اس 18ویں ترمیم کے بعد سارے صوبے اپنے پی ایم ڈی سی جبکہ بلوچستان اور کے پی کے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن کیوں نہیں بنا لیتے۔

ہم نے مانا کہ بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس بڑے اہم ہیں انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پارلیمانی افراد اور پارلیمانی پرفارمنس بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جاگتے رہئے ’’اوروں‘‘ پر نہ رہئے پاک و ہند میں پارلیمانی لوگ بیک وقت خوردبین اور دوربین کی زد میں ہوتے ہیں تسلیم کہ اس وقت وفاقی سیکرٹری ہیلتھ سروسز بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں ہمیں معلوم ہے ڈاکٹر اللہ بخش ملک پاکستان کے واحد اور پہلے مسلم ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ / یونیسکو Confucius Laureate اعزاز حاصل کیا۔

ہم نے ان کی ایسی ہی پرفارمنس کے ہیلتھ میں بھی منتظر ہیں۔ ذرا فارمیسی کونسل کی انسپیکشن ٹیم، ڈریپ کے ادویاتی امور، پی ایم ڈی سی کا طرز عمل اور نرسنگ کونسل کے معیار کا جائزہ، تو ہو جائے، مگر پرانے ’’کھڑوس‘‘ ذرا دور بٹھا کر!

تعلیم کی بات رہ گئی وہ پھر سہی لیکن چلتے چلتے اتنا عرض کردیں کہ جب مریم نواز شریف اور سائرہ افضل تارڑ کے دور میں ہیلتھ ویلتھ کارڈ کی دھوم تھی ہم اس وقت بھی کہتے اور آج بھی کہتے ہیں کہ یہ شناختی کارڈ ہی ہر شہری کا ہیلتھ کارڈ ہے علاوہ بریں عام بیماریوں اور فرسٹ ایڈ کیلئے بنیادی اسپتالوں کو فنکشنل کریں تاکہ بڑے اسپتالوں میں ہر وقت ہر چیز کا ہجوم نہ ہو۔ گیم اور سیاست میں رہنا ہے تو امور صحت اور امور تعلیم میں پرفارم کرلیں پھر حکومت میں ہوں نہ ہوں میں آف دی میچ ضرور ہوں گے۔ ورنہ۔۔۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین