• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ گروپ نے ہماری ساکھ متاثر کرنیکی مہم شروع کی ہوئی ہے، نیب ترجمان

اسلام آباد (حنیف خالد) ملک بھر میں بیوروکریٹس نیب ایکشن کے خوف سے اہم فیصلے کرنے میں سست روی کا شکار ہوگئے ہیں جس کے باعث چاروں صوبوں میں ترقیاتی کام رک رہے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے شاہرات پلوں کے منصوبوں پر کام کی رفتار بے حد سست ہے۔ چائنا پاک اکنامک کوریڈور کے پروجیکٹ کم وبیش رکے پڑے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں عملہ صفائی کی کئی روزہ ہڑتال ختم کرانے کی کسی سرکاری عہدیدار کو جرأت نہ ہوئی گزشتہ روز کہیں جاکر ہڑتال ختم ہوئی۔ اسی طرح بلوچستان سندھ کے پی پنجاب میں سی پیک (CPEC) پروجیکٹوں پر سابقہ 4 سالوں کی رفتار نیب ایکشن کے باعث ماند پڑ گئی ہے۔ لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین ہو یا کشمیر ہائی وے میٹرو سٹیشن سے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بنی بنائی میٹرو بس منصوبہ وہ بھی 13 ماہ میں موجودہ حکومت میں بیوروکریسی مکمل نہ کراسکی جو چار ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ پشاور میٹرو کے طویل عرصے سے مکمل نہ ہونا نیب ایکشن کے خوف کی ایک اور مثال ہے۔ نیب کا سی پیک پروجیکٹوں کے متعلق جو حسن سلوک ہے بیوروکریٹس ان پروجیکٹوں کی فائلیں نیب کے ایکشن کے خوف سے آگے چلانے سے گریزاں ہیں۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز(PICSS) کے زیر اہتمام منعقدہ گول میز کانفرنس کے دوران سی پیک کےموضوع سے متعلق ماہرین نے کہا کہ پاکستان سی پیک کے بارے میں واضح حکمت عملی کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں منصوبوں کی مجموعی پیشرفت میں سست روی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گول میز کانفرنس میں اقتصادی اور اسٹرٹیجک ماہرین، تاجروں، اکیڈمیہ، صحافیوں، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی شریک تھے۔ چیئرمین PICSS میجر جنرل (ر) سعد خٹک ، ڈاکٹر اظہر احمد ہیڈ ڈیپارٹمنٹ انٹرنیشنل ریلیشنز بحریہ یونیورسٹی، بریگیڈئر (ر) سیف ملک، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ انٹرنیشنل ریلیشنز مسلم یونیورسٹی، ڈاکٹر طلعت شبیر ڈائریکٹر چائنا پاکستان اسٹڈی سنٹر (سی پی ایس سی) آئی ایس ایس آئی، بریگیڈ (ر) سعد محمد اسٹریٹجک تجزیہ کار، بریگیڈئر (ر) احتشام دفاعی تجزیہ کار، عبداللہ خان منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی سی ایس ایس، وجیہہ بٹ ، سیاسی تجزیہ کار اور دیگر نے اس بحث میں حصہ لیا۔ شرکاء نے سی پیک کے منصوبوں پر پیشرفت پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر راجہ عامر اقبال نے کہا کہ چینیوں کی دو رائے نہیں ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو سی پی ای سی کے حوالے سے میں واضح حکمت عملی کا فقدان ہے۔ شرکاء میں سے بیشتر نے اس خیال سے اتفاق کیا ۔ ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا واضح حکمت عملی میں کوتاہی ہے یا جان بوجھ کر یہ سب کیا جا رہا ہے۔ راجہ عامر اقبال نے کہا کہ معاملات 2018 تک صحیح سمت میں گامزن تھے لیکن پھر معاملات بدل گئے اور صورتحال تعطل کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ٹرانزٹ ٹریڈ کے بارے میں سوچنے اور محض ٹول ٹیکس جمع کرنے کے بجائے صنعت کاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بریگیڈئر (ر) سعد محمد نے کہا کہ چینی چاہتے ہیں کہ ہم تنازعات سے گریز اور ترقی کریں لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستان کی تشکیل کے بعد سے تنازعات کا شکار ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے سب سے اہم رکاوٹ چینیوں اور پاکستانی ہم منصبوں کے مابین کاروباری اخلاقیات کا فرق ہے۔ تاہم، ہم پاکستان میں چینی کاروباری اخلاقیات کو نافذ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ہمیں پاکستان کے حالات کے مطابق دیکھ کے چلنا ہے۔ گول میز کانفرنس شراکین نے سی پیک کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے سیاسی اور معاشی میدان میں ساختی اصلاحات لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف سے صرف 6بلین امریکی ڈالر کیلئے پاکستان عملاً 23ارب ڈالر ضائع کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے وجہ سے سی پیک سست روی کا شکار ہے، عابد امام نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پیکیج کی ضرورت نہیں تھی اور پاکستان کو جلد سے جلد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہئے۔ میجر جنرل (ر) سعد خٹک نے اختتامی کلمات دیتے ہوئے کہا کہ پاور کوریڈورز میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے اپنے ذاتی مفادات ہیں جو پاک چین تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور ایسے لوگوں کی موجودگی میں سی پیک سے فائدہ حاصل کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ نیب کے ترجمان نے یہ دعویٰ کیا کہ نیب کے خوف سے بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں نیب بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کام کرنے والا سب سے معتبر ادارہ ہے ملکی و غیر ملکی اداروں نے بھی نیب کے معتبر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ سروے کے مطابق 59 فیصد افراد نیب پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیب کے ترجمان کا یہ الزام کہ جنگ گروپ نے مبینہ طور پر نیب کی ساکھ متاثر کرنے کی باقاعدہ مہم جاری کر رکھی ہے۔ نیب بیوروکریسی کی خدمات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بیوروکریسی قانون کے مطابق فرائض سرانجام دیتی ہے تو نیب سے کوئی شکایت نہیں ہوگی بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کا تاثر بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ ترجمان کے مذکورہ دعوے اگر سو فیصد درست ہیں تو پھر ایک ریٹائرڈ میجر جنرل سعد خٹک چیئرمین پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (Pakistan Institute for Conflict and Security Studies- PICSS) میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے بیشتر مقررین نے سی پیک کے پروجیکٹوں میں سست روی کی برملا شکایات کیوں کیں اور تو اور خود وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد وفاقی وزراء کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریسی مشکل فیصلے نہیں کرے گی تو حکومت نہیں چلے گی۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہوا ہے کہ بیوروکریسی اور پرائیویٹ سیکٹر نیب سے پریشان ہیں۔ وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے ایل این جی کیس میں پی ایس او کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر عمران الحق کی گرفتاری کو غلط قرار دیا صرف یہی نہیں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی سی پیک کے تحت ایم ایل ون منصوبے کی تاخیر سے متعلق کہا تھا کہ بیوروکریسی نیب کے خوف کا شکار ہے اور اس کے خدشات دور کرنا ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے اعلانیہ ممتاز ترین اور معروف ترین ماہر اقتصادیات مالیات سابق وزیر خزانہ و ریونیو اسد عمر جن کو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی ہنگامی انٹرنس کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی وزیراعظم عمران خان کو پیار محبت سے الگ کرنا پڑا تھا نے بھی نیب قوانین میں ترامیم کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں مشیر تجارت پیداوار صنعت عبدالرزاق دائود بھی 7 اگست کو میڈیا سے اپنی گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ نیب کاروباری افراد کے خلاف کارروائی کیلئے نہیں بنا تھا۔ منجھے ہوئے محب وطن وفاقی مشیر تجارت صنعت پیداوار اور ملک کے سربرآوردہ سرمایہ کار عبدالرزاق دائود کو یہ سخت جملہ بھی کسی بنیاد پر میڈیا کے سامنے بولنا پڑا جس کا نیب ترجمان کو بخوبی ادراک ہونا چاہئے۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان کا یہ ٹویٹ تو نیب ترجمان اور قوم کو تاحال نہیں بھولا ہوگا کہ نیب چیئرمین کو اپنے ادارے والوں کے خلاف ایکشن لینا چاہئے جو تضحیک آمیز ایکٹ (DISGRACEFUL ACT)کے ذمہ دار ہیں۔ ترجمان نیب نے تو کہا ہے کہ نیب بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کام کرنے والا پاکستان بھر کے تمام اداروں سے معتبر ترین ادارہ ہے مگر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مذکورہ ٹویٹ نے خود ہی مذکورہ دعوے کی نفی کر دی ہے۔

تازہ ترین