• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔

23ستمبر 1932کو سعودی عرب بھی احیائے اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو پاکستان بھی کلمے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

پاکستان کو تسلیم کرنے میں بھی سعودی عرب نے دیر نہ لگائی۔ اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد ابتدا میں ہی قائم ہو گئی جو اب تک قائم و دائم ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا جسے معاہدۂ دوستی بھی کہا جاتا ہے۔

شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔

اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔

1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔

اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوابازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔

شاہ فیصل کے دورِ حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔1965ء کا پاک بھارت معرکہ ہو یا 1971ء کی جنگ، سعودی عرب نے پاکستان کو ہر طرح کی مدد فراہم کی۔

1974ء میں او آئی سی اجلاس کی میزبانی کا شرف پاک سرزمین کو حاصل ہوا تو اس کا انعقاد بھی سعودی عرب ہی کی محنت کا ثمر تھا۔ اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے پاکستان کو شرفِ میزبانی بخشا۔

پاکستان کی برابر مالی معاونت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور فلاحی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پر بدترین عالمی پابندیاں عائد ہوئیں تو سعودی عرب اس موقع پر بھی بڑا بھائی بن کر سامنے آیا۔ ایک برس تک 50ہزار بیرل تیل ادھار دیا۔

2005ء کے بدترین زلزلے اور 2010ء کے تباہ کن سیلاب میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ چند برس قبل بھی پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز تحفتاً پیش کیے۔ پاکستان نے بھی ہر اہم موڑ پر سعودی عرب کی حمایت کی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان آمد پر شاندار خیرمقدم اور ان کی طرف سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کے 20ارب ڈالر کی مفاہمت پر دستخط ہونا یقیناً دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی وسعتوں کی خبر دیتے ہیں۔

یہ صرف پاکستان کے ساتھ معاملہ مخصوص نہیں ہے، جہاں کہیں بھی مسلم امہ پر کڑا وقت آیا یا کسی امداد کی ضرورت پیش آئی سعودی عرب نے اپنا کندھا ضرور پیش کیا۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی۔ پاکستان میں چاہے کسی کی بھی حکومت رہی ہو، ہر حکمران نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اولین فوقیت دی اور پاکستان کے حکمرانوں کی روایت رہی ہے کہ وہ سب سے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اپنے دیرینہ اور مخلص دوست ملک سعودی عرب کیساتھ تعلقات کو استوار کیا، وزیراعظم عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے دورے پر آ چکے ہیں، وزیرعظم عمران خان نے اقوام متحدہ اجلاس میں جانے سے قبل بھی سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقاتیں کی ہیں۔

سعودی قیادت نے پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ہر فورم پر حمایت کرے گا۔ جس طرح سعودی عرب مسلم امہ کی سربراہی کا کام کر رہا ہے اور ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں جس طرح جدیدیت کو فروغ مل رہا ہے، امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب نہ صرف مسلم امہ بلکہ پوری دنیا میں ایک کلیدی کردار کا حامل ملک بن کر ابھرے گا۔

تازہ ترین