• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ کو اپنی اور اپنے رفقا کی ملک کو دفاعی طور پر مضبوط کرنےکی کوششوں کی ابتدا، ترقی اور قدرت کی مہربانی کی چند دلچسپ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ لوگ ہمیشہ اسکے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

آپ کو علم ہے کہ میری پیدائش ہندوستان کے وسط میں واقع ریاست بھوپال جنت مقام میں ہوئی تھی۔

اس شہر و ریاست کی خوبصورتی کو الفاظ کی زنجیر میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم کے بعد میرے دو بڑے بھائی کراچی آگئے تھے۔

ایک چند ماہ بعد سعودی عرب میں تیل کی کمپنی میں ملازم ہو کر دہران چلے گئے تھے اور دوسرے کراچی پولیس میں شامل ہوگئے تھے۔

1950ءمیں بڑی بہن کی شادی ہمارے دور کے کزن سے ہوئی تھی وہ 1947ءمیں نواب جونا گڑھ کے بیٹے کیساتھ کراچی آگئے تھے، وہ بھوپال آئے میری بہن سے شادی ہوئی اور وہ واپس کراچی روانہ ہوگئے ان کیساتھ مجھ سے جو بڑے بھائی تھے وہ بھی کراچی آگئے اور پولیس میں ملازمت کرلی۔

1952ءمیں ہائی اسکول پاس کرکے میں بھی چند بھوپالی خاندانوں کے ساتھ براستہ کھوکھرا پار کراچی آگیا۔

میں نے ڈی جے کالج سے بی ایس سی کیا اور سرکاری انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات بن گیا۔ میں نے یہ ملازمت تین سال کی اور اعلیٰ تعلیم کے شوق میں 1961ءمیں برلن چلا گیا۔

وہ بڑا مشکل وقت تھا وہاں لوگ انگریزی نہیں بولتے تھے ٹی وی پر کوئی انگریزی پروگرام نہیں ہوتا تھا اور انگریزی کا اخبار صرف اتوار کو ریلوے اسٹیشن پر ملتا تھا۔ میں نے چھ ماہ میں جرمن زبان پر قابو پا لیا۔

میری عادت تھی کہ چھٹیوں میں اکثر میں آس پاس کے ملکوں کی سیر کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب میں ہیگ (ہالینڈ) گیا تو اپنی بیگم سے ملاقات ہوگئی اور ہم اچھے دوست بن گئے۔

1962کے موسم گرما میں وہ برلن آگئیں اور امریکی فوج کے ہیڈکوارٹر میں کام کرنے لگیں۔ 6؍اکتوبر 1962کو میرے ہوسٹل میں ہم نے منگنی کی رسم ادا کی۔ اس میں کئی ممالک کے طلباء تھے۔

دسمبر 1962ءمیں ہم ان کے والدین سے ملنے ہیگ گئے تو وہاں بیگم نے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ آپ یہاں تعلیم حاصل کرنے آجائیں میں اپنے والدین کی خدمت کرسکوں گی۔

ہیگ سے آدھے گھنٹہ کے فاصلے پر شہر ڈیلفٹ میں نہایت اعلیٰ یونیورسٹی ہے جس کا نام ڈیلفٹ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی ہے، اس زمانے میں اس کو یورپ کی MITسمجھا جاتا تھا۔ میں نے وہاں داخلہ لے لیا اور میرا کوئی وقت ضائع نہ ہوا۔

یہ قدرت کا پہلا کرشمہ تھا۔ اگر میں برلن میں تعلیم مکمل کرتا تو وہاں سے ہی سیدھا کراچی واپس آجاتا اور ہم کبھی ایٹمی قوت نہیں بن سکتے تھے۔ وہاں رہ کر میں نے ڈچ زبان پر عبور حاصل کیا اور جرمن، ڈچ اور انگریزی زبانوں پر مہارت کی وجہ سے بعد میں مجھے اپنے شعبےمیں بہت مدد ملی۔

ہالینڈ سے میں نے MSامتیازی نمبروں سے پاس کیا، ایک سال اپنے بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر کا اسسٹنٹ رہا اور پھر Ph.Dکرنے لیوون(بیلجیم) چلا گیا۔ ہالینڈ میں 9؍مارچ 1964کو ہماری شادی پاکستانی سفارت خانے میں ہوئی۔

مرحوم قدرت اللہ شہاب سفیر تھے اور میرے نکاح کے گواہ، نکاح جناب جمیل الدین حسن نے پڑھایا تھا۔ سفارت خانے نے ایک ریسیپشن بھی دیا تھا۔ جب میں نے پی ایچ ڈی کی تو ایمسٹرڈیم سے مجھے ملک کی سب سے بڑی کمپنی سے ملازمت کی پیشکش ہوئی جہاں انگلستان، جرمنی اور ہالینڈ مل کر تقریباً 20 سال سے یورینیم کی افزودگی پر کام کررہے تھے اور یہ بہت ہی سیکرٹ پروجیکٹ تھا، مجھے اس پر لگا دیا گیا، یہ دوسرا کرشمہ تھا۔ میں نے یہاں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بہت سی مشکلات حل کردیں۔

یہاں میں نے اس ٹیکنالوجی میں بڑی مہارت حاصل کی۔18 ؍مئی1974 کو ہندوستان نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کو ہلا دیا۔ یہ ہمارا تباہی کا اعلان تھا۔

مجھے فوراً احساس ہوا کہ اگر پاکستان نے فوراً اس کے جواب میں حکمت عملی نہ اپنائی تو ہمارے دن گنے جائیں گے۔ میں نے ایک خط بھٹو صاحب کو لکھ دیا کہ وہ فوراً جوابی پروگرام شروع کروائیں۔

1974ء میں دسمبر کے اواخر میں بیگم اور دونوں بیٹیوں عمر 5سال، 4سال کے ہمراہ کراچی آیا۔ ہم ہمیشہ کرسمس اور نئے سال پر کراچی آتے تھے اور والدہ اور بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب سے ملتے تھے۔ جب ہم کرسمس 1975میں پھر چھٹی پر آئے تو میں بھٹو صاحب سے ملا۔

انہوں نے اچانک مجھ سے پوچھا کہ آپ کب واپس جا رہے ہیں، میں نے کہا کہ15 ؍جنوری کو، وہ بولے ڈاکٹر صاحب آپ نہ جائیں براہ مہربانی رُک کر آپ یہ کام اپنی نگرانی میں کرائیں۔

میرے لئے یہ بم شیل تھا، ہم چھٹی پر آئے تھے میری اعلیٰ نوکری تھی، یورپ، انگلینڈ، امریکہ وغیرہ جایا کرتا تھا، یورپین یونین میں ہالینڈ کی نمائندگی کرتا تھا۔

میں نے کہا ہم تو چند سادے سے گرمی کے کپڑے لے کر آئے ہیں۔ میرا تمام لٹریچر وہاں ہے میں جاکر تین، چار ماہ بعد آجائوں گا۔ وہ بولے، نہیں! آپ نے یہ کام کیا ہے آپ کو تجربہ ہے آپ کر لیں گے۔ میری بیگم نے نہایت محبت اور سمجھداری کا ثبوت دیا اور کہا اگر پاکستان کے لئے کچھ اچھا کام کرسکتے ہو تو ہم رُک جاتے ہیں جاکر اپنا ضروری سامان لے کر آجائوں گی اس طرح ہم رُک گئے۔

میں نے محب وطن سائنسدانوں، انجینئروں کی ٹیم بنائی، مجھے اپنے کام کرنے کی مکمل آزادی دی گئی(یہ بھی کرشمات کا تسلسل تھا)۔ یہ کام آسان نہ تھا۔ میرے رفقائے کار اور میں نے اس کو جہاد تصور کرکے کام کیا ہمیں علم تھا کہ اگر ہم فیل ہوئے تو یہ ملک کے لئے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

تازہ ترین