• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بار بار عرض کر چکا کیونکہ بار بار اس کے مظاہردیکھنے کو ملتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے سینے میں دل پہلے سے نہیں تھا تاہم اب اس کی آنکھ میں اب حیا بھی نہیں رہی ۔ اس سیاسی بے حیائی کا تازہ ترین مظاہرہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے سیاسی رہنمائوں کا ردعمل دیکھ کر ملاحظہ کیجئے۔ ڈھٹائی دیکھ لیجئے کہ پیپلز پارٹی بھی پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی پر احتجاج کا ڈرامہ کررہی ہے ۔ وہ پیپلز پارٹی جس کی قیادت نے ان کیساتھ این آر او کیا، جس کے وزراء نے مسلم لیگی وزراء کے ہمراہ ان سے حلف لیا، جس نے ان کو گارڈ آف آنرکے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کیا، جس نے ان کو اپنے دور میں ملک سے باہر جانے دیا اور جس نے ان کے خلاف کسی کارروائی کی ہمت نہیں کی ۔ آخر کوئی شرم ہوتی ہے ۔ کوئی حیاہوتی ہے ۔ اور تو اور عمران خان صاحب بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ وہ بھی فرمارہے ہیں کہ پرویز مشرف کو جانے نہیں دینا چاہئے تھا ۔ حالانکہ ان کی گزشتہ سترہ سال کی سیاست پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ قربتوں اور عنایتوں کی مرہون منت ہے ۔ ان کے دھرنوں کا اصل مقصد جنرل پرویز مشرف کے گریبان سے میاں نوازشریف کے ہاتھ کو نکلوانا تھا اور جب میاں صاحب کا وہ ہاتھ پرویز مشرف اور ان کے غمخواروں کے، قدموں میں چلا گیا تو دھرنے بھی ختم ہوگئے۔آخر کون نہیں جانتا کہ جس گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ذریعے میاں نوازشریف کی رخصتی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد کی راہ ہموار کی گئی ، اس جی ڈی اے میں خان صاحب، ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمرکاب رہے ۔ پھر جب پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو خان صاحب نے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کا خیرمقدم کیا ۔ اپنے درجنوں دوستوں کو پرویز مشرف کی مرکز ی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بنایا ۔ ریفرنڈم کے دوران سیاسی خوشامد کی خاطر اپنے انقلابیوں کے سینوں پر پرویز مشرف کے بیج لگوا کر خود شہر شہر جاکر ان کیلئے ووٹ مانگے ۔وہ صبح پرویز مشرف کے سیاسی منیجروں کے دفاتر میں نظر آتے اور شام کو محترمہ جمائما خان کے ساتھ پرویز مشرف کے گھر حاضری لگا کر وزارت عظمیٰ کی لابنگ کرتےرہے ۔ پرویز مشرف نے ان کا اور چوہدری شجاعت حسین کا مقابلہ بنا رکھا تھا اور دونوں پر واضح کیا تھا کہ جس نے بھی زیادہ لوگ جمع کئے وہ انہیں وزیراعظم بنائیں گے ۔ پرویز مشرف کی ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھ تھیں لیکن ان کے سیاسی منیجروں نے وزن چوہدری شجاعت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس دوران خان صاحب نے کئی بار پرویز مشرف سے ان کے سیاسی منیجروں کی شکایت بھی لگائی لیکن بہرحال پلڑا چوہدریوں کا بھاری ہوگیا۔ اس پرعمران خان چند سالوں کیلئے پرویز مشرف سے ناراض ہوگئے لیکن پھر بھی ڈرون حملوں ، طالبان اور دیگر ایشوز پر وہ پرویز مشرف کے اسٹرٹیجک ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کوشاں رہے ۔ خان صاحب کی جو توقعات پرویز مشرف نے خود پوری نہیں کیں ، وہ ان کی باقیات نے پوری کردیں ۔ا نہی لوگوں نے ان کی جماعت میں جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور اسی نوع کے درجنوں مہروں کو شامل کروایا۔ انہوںنے میڈیا اور میڈیا میں موجود اپنے حمایتیوں کو عمران خان کا قدکاٹھ بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ انہوں نے ان کیلئے لاہور ، پنڈی اور کراچی کے جلسوں کیلئے پیسے دلوائے اور جواب میں خان صاحب نےا سٹیٹس کو کے خلاف بننے والی اپنی جماعت کو پرویز مشرف کی باقیات کا سیاسی فورم بنادیا۔ جہانگیر خان ترین پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے اور ان کی دولت میں دن دگنا رات چگنا اضافہ ان ہی کے دور میں ہوا۔ وہ آج تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد دوسرے طاقتور ترین فرد ہیں ۔ غلام سرور خان سے لے سردار یار محمد رند تک اورعلیم خان سے لے کر خورشید محمود قصوری تک ، سب جنرل پرویز مشرف کی سابقہ ٹیم ،اس وقت عمران خان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن پرویز مشرف کی اصل خدمت خان صاحب نے ان کی باقیات کے کہنے پر دھرنوں کی صورت میں کی ۔ نوازشریف حکومت نے اخلاقی برتر ی کے بغیر جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی حماقت کی تو اسی رو زسے دھرنوں کا منصوبہ شروع ہوا۔ مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ نوازشریف نے جو ہاتھ پرویز مشرف اور ان کی باقیات کے گریبان میں ڈالا ہے ، اسے قدموں میں لے جائے ۔ 14 اگست 2014کو دھرنوں کیلئے لاہور سے مارچ کا آغاز ہوا اور 17اگست 2014 کو کراچی میں میری جنرل پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دھرنوں کیلئے پی ٹی آئی کے جلوس میں کم حاضری پر فکر مند اور اس مہم کی کامیابی کیلئے خان صاحب سے زیادہ دعا گو تھے ۔ ان دھرنوں کے ذریعے خان صاحب نے سیاست کو بے وقعت کیا، صحافت کو رسوا کیا ، عدالت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ، پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوئے ، سول نافرمانی کا اعلان کیا ، اپنے چاہنے والوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں اور سب سے بڑھ کر اپنے اراکین پارلیمنٹ کو بے عزت کیا۔ ان کے ایم این ایز اور دو اسمبلیوں کے ایم پی ایز ایک دن بے مثال سیاسی بے شرمی کا مظاہرہ کرکے سرجھکا کر اسی اسمبلی میں جابیٹھے،جس کو وہ کئی ماہ تک گالیاں دیتے رہے اور پھر وہاں سے حرام کی تنخواہیں بھی وصول کیں۔ جب مقصد پورا ہوا، پرویز مشرف کے محاسبے کا خطرہ ٹل گیا اور میاں نوازشریف کا گریبانوں میں جانے ولا ہاتھ قدموں میں آگیا تو دھرنے بھی ختم ہوگئے اور دھرنا دھرنا کھیلنے والے پارلیمنٹ پارلیمنٹ کھیلنے لگے ۔ تبھی تو خواجہ آصف بے اختیار پکاراٹھے تھے کہ آخر کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیاہوتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب تماشہ یہ ہے کہ وہ صحافتی افلاطون جو پرویزمشرف کے احتساب کیلئے بے چین تھے اور جو پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے سیخ پاہورہے ہیں ، باقیوں پر توغصہ نکال رہے ہیں لیکن اپنے چہیتے عمران خان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ خان صاحب! آپ کو اگر واقعی پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے تکلیف ہے تو پھر آپ نے دھرنے کس لئے دئیے، پارلیمنٹ پر حملے کیوں کئے،شیخ رشید کو کس لئے مشیر خاص اور طاہرالقادری کو کیوں بھائی بنایا۔ سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں کو گالیاں کیوں دلوائیں ، اسلام آباد اور ملتان میں اپنے لوگ کیوں مروائے اورایسے اسکرپٹ پر عمل درآمد کیلئے کیوں کمربستہ ہوئے جس میں سینکڑوں انسانوں نے لقمہ اجل بننا تھا۔ یہی تو ہدف تھا ۔ مقصد تو حاصل ہوگیا۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے اور پرویز مشرف کی رخصتی کا جشن منانا چاہئے لیکن آپ بھی ان کے جانے پر رونے کا ڈرامہ کررہے ہیں ۔ آخر حد ہوتی ہے۔
شکریہ پرویز خٹک
سوات اور ملاکنڈ کے دیگر اضلاع میں طالبان کے خلا ف آپریشن کے بعد فوج اور ریگولر پولیس کی معاونت کیلئے اس وقت کی صوبائی حکومت نے 2009ء میں ہنگامی بنیادوں پراسپیشل پولیس فورس کیلئے تقریباً پانچ ہزار نوجوان بھرتی کئے ۔ ان کو فوج سے ٹریننگ دلوائی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ طالبان یا ان کی باقیات کی سرگرمیوں پر نظررکھنے کی خاطر ان کو اپنے اپنے یونین کونسل میں تعینات کیا جائے گا۔ اسپیشل فورس کے یہ نوجوان وی آئی پیز کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سرکاری عمارتوں کی حفاظت پر مامور کئے گئے اور کئی ایک نے جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ ان لوگوں کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا تھا اوران کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا کہ بعد میں ان کو مستقل کردیا جائے گا۔ ان کی ابتدائی تنخواہ دس ہزار روپے ماہانہ تھی اور بعد میں اے این پی کی حکومت نے اسے پندرہ ہزار ماہانہ کردیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دو سال مکمل ہونے کے بعد ان کو مستقل کیا جاتا لیکن پختونخوا میں پولیس اصلاحات کے بلندبانگ دعوے کرنے والی حکومت نے ان لوگوں کومزید تین سال لٹکائے رکھا۔ ظلم کی انتہا یہ دیکھئے گزشتہ سال کی تکمیل پر ان کے کنٹریکٹ میں توسیع بھی نہیں کی گئی لیکن تماشہ یہ ہے کہ ان کو فارغ بھی نہیں کیا گیا اور وہ حسب سابق ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔ وہ مستقل ہونے کے منتظر تھے لیکن الٹا صوبائی حکومت نے ان کی تنخواہیں بھی بند کردیں ۔ فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان پانچ ہزار پولیس اہلکاروں کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں نہیںملیں جس کی وجہ سے ان کے بچے فاقوں اور خود وہ احتجاج پر مجبور ہوئے۔ گزشتہ ہفتہ کے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں اس حوالے سے میں نے سوات سے جیو نیوز کے رپورٹرمحبوب علی کی تیار کردہ رپورٹ نشر کی ۔ گزشتہ روز اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے مجھے ٹیلی فون کرکے آگاہ کیا کہ انہوں نے دو سال کیلئے ان پولیس اہلکاروںکے کنٹریکٹ میں توسیع کے احکامات جاری کردئیے ہیں ۔
اور یہ کہ آٹھ دس روز میں ان کو گزشتہ تین ماہ کی تنخواہیں یک مشت ادا کردی جائیں گی ۔وہ بیوروکریسی اور علاقے کے ممبران اسمبلی پر برہم تھے کہ وہ بروقت مسئلے کو ان کے نوٹس میں نہیں لائے اور اس وجہ سے پولیس اہلکاروں کو یہ تکلیف اٹھانی پڑی ۔ میں نے متعلقہ پولیس اہلکاروں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ابھی تک باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا لیکن مجھے امید ہے کہ پرویز خٹک صاحب اپنے اس اعلان اور وعدے کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔ اگرچہ ابھی عمل ہونا باقی ہے لیکن پھر بھی میں یہ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ شکریہ پرویز خٹک ۔
تازہ ترین