کہاں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور کہاں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق ، آج تک دونوں نام ایک ساتھ نہیں لئے گئے، کیوں ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں ایسے ہی ہیں جیسے آگ اور پانی ، زمین اور آسمان، امبر اور پربت ۔نریندر مودی کی پاکستان دشمنی اور سراج الحق کی بھارت سے مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ۔ایک صاحب کا خواب اکھنڈ بھارت ہے تو دوسرے جناب لال قلعہ پر پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔
اگرچہ بظاہر دونوں میں کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں رہنما دو مختلف انتہائوں پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا عکس نظر آتے ہیں ۔ہو سکتا ہے یہ فقرہ پڑ ھ کے آپ چونک گئے ہوں کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے مگر ٹھہرئیے !حقائق سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ دونوں رہنما ئوں کا تعلق لوئر کلاس کے غریب گھرانوں سے ہے ۔ نریندر مودی چائے کے ٹھیلے پر کام کرتے تھے اور سراج الحق پھٹے جوتوں کیساتھ اسکول جاتے تھے، تعلیم حاصل کرنے کے لئے دونوں کے پاس وسائل نہیں تھے، اسی لئے محنت مزدوری اور تعلیم ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔ دونوں نے کم عمری سے ہی گھراور کیرئیر پر توجہ دینے کی بجائے سیاست کا رخ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔دونوں پہلے دن سے ہی سخت گیر مذہبی نظریات کے علمبردار رہے ۔ دونوں رہنمائوں کی سیاسی جماعتیں ’’عدم تشدد‘‘ کے فلسفے پر کچھ خاص یقین نہیں رکھتیں ۔دونوں نے اپنے اپنے ملک میںدائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا جھنڈا تھاما اور ابھی تک نہیںگرنے دیا ۔سیاست میں کبھی اپنی پارٹی تبدیل نہیں کی۔ نریندر مودی اور سراج الحق دونوں نے مذہبی وجوہات کی بنا پر داڑھی رکھی تھی جو ابھی تک قائم ہے۔نریندر مودی انڈیا کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو تقسیم ہندو ستان کے بعد پیدا ہوئے ۔ اس سے پہلے جواہر لعل نہرو سے اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ تک انڈیا کے سب وزرائے اعظم کی تاریخ پیدائش تقسیم ہند سے پہلے کی تھی۔ یہاں بھی سراج الحق مودی کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں کہ سراج الحق اپنی جماعت یعنی جماعت اسلامی کے پہلے امیر ہیں جو تقسیم ہند کے بعد پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے کے تمام امیر (سیدابوالاعلی مودودی ، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن) 1947ء سے پہلے پیدا ہوئے ۔اب بات کرتے ہیں پارلیمانی سیاست کی۔ نریندر مودی اور سراج الحق 2002 میں اپنے اپنے صوبوں کی اسمبلیوں کا حصہ بنے۔ دونوں نے اسی سال اپنا پہلا پہلا الیکشن لڑا اوردونوں رہنما الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ نریندر مودی نے راجکوٹ گجرات سے الیکشن جیتا ، اگرچہ وہ 2001ء کے آخر میں وزیر اعلیٰ بن چکے تھے لیکن باقاعدہ رکن اسمبلی 2002 ء میں بنے ۔ دوسری طرف سراج الحق نے بھی اسی سال لوئر دیر (خیبرپختونخوا) سے پہلا الیکشن جیتا ۔ دونوں رہنما الیکشن جیتنے کے بعد حکومتی ایوانوں کا حصہ بنے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلی کیلئے جب بھی منتخب ہوئے، اپوزیشن ان کا مقدر نہیں بن پائی ۔ سراج الحق دو بار سینئر صوبائی وزیر صوبہ سرحد(بعد ازاں خیبر پختونخوا) اور نریندر مودی تین بار گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ صوبائی سیاست میں ایک ایک متنازع واقعہ دونوں سے جڑا ہواہے ۔ مودی سن دو ہزار دو میں گجرات فسادات کے معاملے میں بدنام ہوئے دوسری طرف سراج الحق نے سن دو ہزار چھ میںڈمہ ڈولا ڈرون حملہ میں مرنے والوں کا جنازہ پڑھایا جس میں ریاست مخالف طالبان کمانڈر بھی موجود تھے ۔ ان دونوں واقعات کی وجہ سے آج بھی ان دونوں رہنمائوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔دونوں رہنمائوں نے صوبائی سطح پر حکومت میں رہنے کے بعد مرکز کی جانب آنے کا منصوبہ بنایا ۔ دہلی میں نریندر مودی اپنے سے سینئر رہنمائوں سے آگے نکلے اور ایل کے ایڈوانی، نتن گٹکری اور راج ناتھ سنگھ کے ہوتے ہوئے بھی اپنا منفرد مقام بنایا ۔ دوسری طرف سراج الحق بھی پیچھے نہ رہے۔انہوں نے بھی اپنے سے کئی سینئر رہنمائوں مثلاًسید منور حسن، پروفیسر خورشیداحمد اور لیاقت بلوچ کی موجودگی میں ذمہ داریاں سنبھالیں اور پھر جماعت اسلامی کے امیر بن گئے۔ حیران کن طور پر دونوں ایک ہی سال یعنی 2014ء میں ہی صوبائی سطح سے قومی سطح کی طرف آئے۔سیاسی سفر کے علاوہ بھی کئی معاملات میں نریندر مودی اور سراج الحق میں یکسانیت پائی جاتی ہے مثلاً یہ کہ دونوں رہنمائوں کی جوانی عسکریت پسندی سے محبت میں گزری ، نریند ر مودی نے ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ میں جوانی بیتائی تو دوسری جانب سراج الحق افغان جنگ کے دوران سرگرم رہے اورعسکریت پسندوں کے مشہور ٹریننگ کیمپ’’ البدر‘‘ سے انکا لگائو ڈھکا چھپا نہیںہے۔
لوگوں سے میل ملاپ رکھنے کا طریقہ کار بھی ددنوں میں اس حد تک مشترک ہے کہ دونوں رہنماجڑواں بھائی لگتے ہیں ۔بھلے وہ عام آدمی ہو یا پھر کوئی قومی و بین الاقوامی شخصیت ، مودی اور سراج الحق، دونوں ایسی بے تکلفی اور پر جوش انداز سے ملتے ہیں جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔عوامی انداز کو اپنانا بھی ان دونوں پر ختم ہے ، بھارت میں جہاں مودی جھاڑو پھیرتے ، یو گا کرتے ، چین کے صدر کے ساتھ بیٹھ کر چرخہ کاتتے نظر آتے ہیں وہیں سراج الحق پاکستان میں رکشہ چلاتے ، زمین پر بیٹھ کے کھانا کھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ دونوں کے ایسے کاموں کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ دونوں رہنما اپنے ممالک کے روایتی قومی لباس کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں فرنگی لباس کچھ زیادہ پسند نہیں ہے ۔آخری انکشاف یہ بھی سنتے چلیں کہ دونوں رہنمائوں کی پیدائش کا مہینہ بھی ایک ہی ہے۔ انٹر نیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق نریندر مودی 17 ستمبراور سراج الحق 5 ستمبر کو پیدا ہوئے ۔ اس حساب سے علوم فلکیات میںدونوں کا ستارہ بھی سنبلہ (virgo) ہے۔
ان تمام دلچسپ اور منفرد معلومات نے ایک سوال ضرور پیدا کر دیا ہے کہ کیا سراج الحق بھی کبھی نریندر مودی کی مانند ملک کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ پائیں گے یا پھر جماعت اسلامی ان کے پائوں کی زنجیر بن جائے گی کہ جس کے مقدرمیں خاکسار تحریک جیسا زوال ہی لکھا ہے ؟