مولانا فضل الرحمٰن نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کیا امریکی حکومت ان سے ڈیل کرے گی؟ امریکی سفیر این پیٹرسن کو مولانا نے خبردار کیا کہ امریکہ اپنے تمام انڈے صرف ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالے۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی حکومت اپنی ساری توجہ بینظیر بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی پر ہی نہ دے بلکہ ان کی جماعت کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔
یہ واضح طور پر وزیراعظم بننے کے لیے مولانا کی طرف سے امریکہ کو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ذمہ دار آدمی ہیں اور دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس لیے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
20نومبر 2007کو مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے ظہرانے کی دعوت پر ہونے والی اس ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری، سینیٹر طلحہ اور اعظم سواتی بھی موجود تھے۔ امریکی سفیر نے مولانا فضل الرحمٰن کی اس مبینہ گفتگو کی روداد 28نومبر 2007کو اپنی حکومت کو بھیجی۔ جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے منظرعام پر آگئی۔
امریکی سفیر کے مطابق بات چیت کا آغاز ہوا تو مولانا عبدالغفور حیدری نے امریکی سفیر کو کہا کہ پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتیں آگے آنے کے لیے امریکی حکومت سے اشیرباد لیتی ہیں، یعنی ان کے خیال میں کوئی بڑی سیاسی جماعت بننے کیلئے حتمی منظوری امریکہ دیتا تھا۔ مولانا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ایک بڑی جماعت بننے کی خواہشمند ہے، اس لیے امریکہ سے رابطے میں رہنا چاہتی ہے۔
مولانا غفور حیدری کی بات اس لیے بھی غلط نہ تھی کہ ان دنوں امریکی حکومت واقعی پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑی دلچسپی لے رہی تھی کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی اور امریکہ کے اتحادی پرویز مشرف کا اقتدار اندرونی سازشوں اور وکلا تحریک کے باعث خطرے میں پڑ چکا تھا۔ امریکی سفیر این پیٹرسن لکھتی ہیں کہ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ امریکہ کسی رہنما کے سر پر تاج نہیں رکھتا بلکہ جمہوری عوامی فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔
ایک طرف امریکی سفیر یہ لکھ رہی تھیں تو دوسری طرف امریکی سفیر کی باس اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس مشرف اور بینظیر کے درمیان مفاہمت کروا چکی تھیں۔ جس کا اعتراف کونڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت’’No Higher Honor‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
امریکی سفیر سمجھتی تھیں کہ مشرف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی مولانا کو پسند کرتے جبکہ مولانا خود کو مستقبل کا وزیراعظم نہیں تو کنگ میکر ضرور سمجھتے ہیں۔ مولانا امریکی سفیر کے لکھے متن کی تردید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دراصل اس ملاقات میں ان سے پیپلز پارٹی کی حمایت کی درخواست کی گئی تھی اور وہ اس بات پر حیران تھے کہ امریکی پاکستان کے اندرونی معاملات میں کس قدر مداخلت کر رہے ہیں۔
اس واقعے سے قبل اکتوبر 2002میں جنرل مشرف کی چھتری تلے ہونے والے انتخابات کی کہانی بھی سن لیجئے۔
ان انتخابات میں جب کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی تو ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے وزیراعظم بننے کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔ مولانا متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل تھے اور انہوں نے وزیراعظم بننے کے جتن بھی کیے تھے مگر اس وقت دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تناظر میں پاکستان میں کوئی باریش وزیراعظم ناقابل قبول تھا۔ اگر یہ رکاوٹ نہ ہوتی تو شاید مولانا تب ہی وزیراعظم بن کر دنیا کو حیران کر دیتے۔
ان دو واقعات کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو محض ایک مولوی یا روایتی مذہبی سیاسی رہنما سمجھنے والے جان سکیں کہ مولانا عام سیاسی کھلاڑی نہیں بلکہ وہ طاقت کے ہر متعلقہ شراکت دار سے رابطہ رکھتے ہیں۔ بروقت درست پتے کھیلنے کے فن سے آگاہ ہیں۔ انہیں منطق پر ایسا عبور ہے کہ دلائل ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں اور وہ ان کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ دوست تو دوست دشمن بھی اَش اَش کر اٹھیں۔
مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں جنہوں نے مذہبی سیاست کو جذباتی نعرے بازی سے نکال کر عقلیت پسندی کی طرف کامیابی سے دھکیلا۔ ان کا اثر و رسوخ پاکستان ہی نہیں بلکہ سرحد پار افغانستان میں بھی موجود ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مولانا فضل الرحمٰن آج کل حکومت کے خلاف مارچ کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ان سے راقم کی چار ستمبر کو ایک طویل ملاقات بھی ہوئی۔ جس سے راقم نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔
اول:مولانا پاکستان میں طاقت کے تمام کرداروں سے مکمل رابطوں میں ہیں۔دوم:فی الحال مولانا اپنے آزادی مارچ کو کامیابی سے اسلام آباد لانے کیلئے مدد و معاونت کے طلبگار ہیں۔ وہ پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا رہے ہیں، اسی لیے ابھی تک آزادی مارچ کی کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔سوم:مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخ کا اعلان کر دیا تو وہ کسی بھی خطرے کی پروا کیے بغیر اسلام آباد آنے کی کوشش کریں گے۔
خود گرفتار ہو بھی گئے تو ان کے کارکن ضرور اسلام آباد پہنچیں گے۔ چہارم:مولانا نے پندرہ لاکھ افراد اسلام آباد لانے کا اعلان کیا ہے، اگر وہ ایک لاکھ افراد بھی کامیابی سے یہاں لے آئے تو مشترکہ اقتدار کی موجودہ دیواروں میں عدم اعتماد کی ایسی دراڑیں پڑیں گی جس کا نتیجہ حکومت کی رخصتی کی صورت میں نکلنا یقینی ہے۔
سچ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کوئی اور نہیں صرف مولانا ہی لا سکتے ہیں اور میری اطلاع یہ ہے کہ وہ کئی اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں انہیں کم از کم ایسا سوچنے پرضرور مجبور کر چکے ہیں۔حالات کا تجزیہ کرنے اور سیاست میں ہلچل مچانے کا فن کوئی مولانا فضل الرحمٰن سے سیکھے۔