• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض افراد حکومتِ وقت پر کشمیر کے معاملے میں تنقید کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مودی تو یہ انتخابات سے پہلے ہی اپنے منشور میں واضح کر چکا تھا تو پھر آپ کو پہلے کیوں نہیں پتا چل سکا کہ کشمیر میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ بعض لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ آپ نے کشمیریوں کیلئے ابھی تک کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک وہاں کرفیو نافذ ہے اور اب بھی لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ کچھ تنقید دوست ممالک کے حوالے سے آتی ہے کہ آپ بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ آپ کے بڑے دوست ہیں لیکن وہ دوست مودی کو کشمیر واقعہ کے بعد سول اعزاز دے رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کی ناکامی نہیں؟ کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ ٹرمپ سے ملنے کے بعدیہ تاثر دیا گیا تھا کہ امریکی صدر نے دلچسپی سے ہماری بات سنی اورجلد ہی مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ لیکن اس کے ملاقات کے چند روز بعد ہی مودی نے آرٹیکل 370ختم کر دیا۔ پھر گزشتہ روز وہی ٹرمپ اور وہی مودی‘ جلسے کے دوران ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اسٹیڈیم کے اندر داخل ہوئے اور ایک دوسرے کی بہت تعریف کی۔ مودی کے جلسے کے برعکس باہر ایک چھوٹا سا احتجاج تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے بیانیے کو تقویت ملی ہے اور امریکہ سمیت عالمی دنیا کشمیر کے معاملے میں ہمارے ساتھ نہیں کھڑی۔

میں ذاتی طور پر اس تنقید سے اتفاق نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کیلئے بہت کوشش کی ہے۔ پاکستان نے مقامی اور عالمی میڈیا میں اس ایشو کو اجاگر کیا، سفارتی طور پر ہم جتنا کر سکتے تھے، ہم نے کرنے کی کوشش کی اور کشمیر میں جو ہو رہا ہے، دنیا کے سامنےاس کی اصل حقیقت بیان کی۔ جنگ کرنے کے علاوہ پاکستان نے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور کوشش کی بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ جن حالات میں ہم اس وقت ہیں، ہم نے اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اسی ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر بھی کریں گے اور وہ تقریر بھی کشمیریوں کی آواز ہوگی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کی زیادہ توجہ ایران اور سعودی عرب کی حالیہ کشیدگی پر ہوگی اور کشمیر کو وہ جگہ نہیں مل سکے گی جو ملنی چاہئے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے جس کو ہم تسلیم کرنا پسند نہیں کرتے کہ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کو حقوق دینے کا یہ واویلا بھارتی ڈرامہ ہے، دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن اپنے معاشی مفادات کی خاطر دنیا چپ ہے۔ کاش ایسا ہوتا کہ عالمی برادری اپنے تعلقات مفادات پر نہیں‘ اصولوں پر استوار کرتی لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔

عرب امارات بھارت کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور ان کے مابین 60ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مودی کو امارات کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی طرح جب جمال خاشقجی کے اغوا اور پھر قتل کی خبریں آئیں تو ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر بیان دیا کہ جو ہوا ہے، وہ بالکل غلط ہوا ہےلیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ مذکورہ ملک امریکہ میں ساڑھے چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے معاشی مفادات کی ایک بہت سادہ مثال ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، انڈین پوری دنیا میں مختلف اہم عہدوں پر فائز ہیں اور مغربی دنیا بھارت کو بالخصوص چین کو کنٹرول کرنے اور خطے میں اس کے متبادل کے طور پر دیکھتی ہے۔ بھارت امریکہ کے لئے ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے ساتھ ایک طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے۔ اسی لیے وہی مودی جس پر چند سال پہلے تک امریکہ داخلے پر پابندی تھی، آج امریکی صدر اس کے جلسے میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا اور اس کی تعریفیں کرتا ہے۔

اگر کوئی تنقید بنتی ہے تو حکومتِ وقت پر نہیں بلکہ ہم سب پہ بنتی ہے۔ ہم دنیا کی چھوٹی سی مملکت ہیں اور عرصہ دراز کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے ہمیں یہاں کھڑا کر دیا ہے کہ ہم دنیا کے سامنے سچ بول رہے ہیں لیکن دنیا ہماری بات پر کان نہیں دھر رہی۔ آج بھی اسے یہی لگتا ہے کہ ہم انہی پرانی پالیسیوں پر چل رہے ہیں۔ ہم کسی کی معاشی ضرورت تو نہ بن سکے لیکن بہت سے لوگوں کو اپنی معاشی ضرورت ضرور بنا لیا۔ ہم جو اسٹرٹیجک ضرورت بننے کی کوشش کرتے رہے، وہ بھی اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔

پاکستان کے پاس بیحد ٹیلنٹ ہے، ہمارے لوگوں میں بہت ہنر ہے لیکن ہم ان کو مواقع فراہم نہیں کر سکے۔ آج بھی ہم اپنی بچی کھچی انڈسٹری اور معیشت کو کچل رہے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کیے بغیر اور اپنے ماضی کا جائزہ لیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان کی حکومت کشمیریوں کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی اور کشمیر کے حق کے لئے لڑتی رہے گی اور تنقید بھی چلتی رہے گی لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی دنیا ہماری بات سنے اور ہمارے موقف کو تسلیم کرے تو ہمیں کہیں نہ کہیں اپنے آپ کو دنیا کی معاشی ضرورت بنانا پڑے گا۔ ہمارا مستقبل اور ہمارا استحکام اسی میں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین