نیویارک (جنگ نیوز / عظیم ایم میاں ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی ہم منصب جے شنکر کی تقریر کا بائیکاٹ کردیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کے قاتل کیساتھ بیٹھوں ایسا ممکن نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کو کشمیریوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا، کرفیو اُٹھانے تک کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے، اگلی سارک سمٹ کی میزبانی پاکستان کرے گا ، پچھلے سال بھارت نے اجلاس پر اعتراض کیا اس بار خاموشی اختیار کی، تاریخیں پاکستان طے کرے گا۔
بطور رکن ملک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت دی جائے گی ، البتہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ خود کو سارک کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق نیویارک کے مقامی ہوٹل میں جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا ، اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنینم جے شنکر تقریر کیلئے آئے تو شاہ محمود قریشی نے بائیکاٹ کردیا اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔
اجلاس ماضی کی طرح نیویارک کے اسی ہوٹل اور اسی کمرے میں منعقد ہوا جہاں بھارتی وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی تھی اور پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر سے قبل ہی سشما سوراج اٹھ کر چلی گئی تھیں۔
کمرے میں حروف تہجی کے اعتبار سے بائیں جانب سے افغانستان ، بھوٹان ، بنگلہ دیش ، بھارت، مالدیپ، نیپال ، پاکستان ، سری لنکا کی نشستیں اور جھنڈے لگائے گئے جبکہ مرکزی نشستیں سارک وزارتی کونسل کے چیئرمین اور سیکرٹری جنرل کی نشستوں کا انتظام ہے نیپال کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے رویہ اور موقف کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں بنیادی حقوق کو معطل کیا ہو ا اس لیے ان کی تقریر میں بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا ، میں نے یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے اور وہاں 53 روز سے جاری کرفیو کے تناظر میں کیا۔
شاہ محمود قریشی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ میں بیٹھوں،بالکل ممکن نہیں،بھارت کو تمام کشمیریوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا، بھارت کویقینی بنانا ہوگا کہ کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سارک سمٹ کا اجلاس اسلام آباد میں 2016 ء میں ہونا تھا لیکن بھارت کی جانب سے ہمیشہ کوئی بہانہ تلاش کرلیا جاتا تھا جس کے باعث اجلاس ملتوی ہوتا رہا، ہم نے انہیں کہا ہے کہ پاکستان سارک اجلاس کی میزبانی کرنے کیلئے تیار ہے، ہم نے تمام ممالک کو اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس کی دعوت دی ہے تاکہ آپس کے معاملات نمٹا سکیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگلے سارک سمٹ کی میزبانی پاکستان کرے گا، پچھلے سال پاکستان میں اجلاس منعقد کرنے پر بھارت نے اعتراض کیا تھا اس مرتبہ خاموشی اختیار کی، سارک باہمی تنازعات سے بالا تر فورم ہے، اس حوالے سے پاکستان رکن ممالک کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اجلاس کی تاریخ طے کرے گا، بطور رکن ملک بھارتی وزیراعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی البتہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ خود کو سارک کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کیخلاف ہیں، ان تمام اقدامات کو نہ صرف کشمیریوں نے مسترد کیا ہے بلکہ خود بھارتی سپریم کورٹ میں بھی کشمیر میں آئینی تبدیلوں کیخلاف 14 پٹیشن دائر کی گئی ہیں، کشمیر کے معاملے پر بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
اجلاس سے قبل جنگ / جیو سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان اس اجلاس کو سارک ممالک کیلئے مثبت نتائج پر ختم ہوتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن گزشتہ پانچ سال میں آٹھ ممالک پرمشتمل سارک کے صرف ایک رکن بھارت نے صرف تمام تر پیش رفت کو منجمد کر رکھا ہے بلکہ پانچ سال سے سارک کے سربراہان کی کانفرنس بھی منعقد نہیں ہونے دی جب سارک وزارتی کونسل کا اجلاس ہوا تو پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ شریک نہیں تھے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل اور افغان وزارت خارجہ کے نمائندے موجود تھے اور کانفرنس کی کارروائی شروع ہوگئی جبکہ پاکستان اور بھارتی صحافی کانفرنس کے ہال کے باہر ان دو وزرأ آمد کے منتظر رہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج بھی وزیر خارجہ شاہ محمود کی تقریر سے قبل اس کمرے اور اجلاس سے اٹھ کر چلی گئی تھیں یہ صورتحال اس جانب بھی اشارہ ہے کہ صدر ٹرمپ سے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی صدر ٹرمپ سے ملاقاتوں اور صدر ٹرمپ کے بیان کے باوجود پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔