• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیسا خوبصورت بچپن تھا۔ ٹاٹ والے اسکول کا کلاس روم ایسا صاف ستھرا کہ اُجلا یونیفارم پہن کے بیٹھو، اٹھو تو کپڑوں سے اتنی گرد جھڑے کہ جیسے آندھی چلے۔ اُستاد بھی ایسے سخت گیر کہ سبق نہ یاد کرنے پر مار ایسی پڑے جیسے کسی تھانے کا تفتیشی۔ کمال لوگ تھے وہ، پیار بھی ایسا کریں جیسے سگے ماں باپ۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ ایسے دیں کہ پوری دنیا فتح کرنے کو دل چاہے۔

بستے میں پڑا ماں کے ہاتھ کا بنا انڈا پراٹھا ایسی خوشبو دے کہ من و سلویٰ لگے۔ آدھی چھٹی سے پہلے ہی اُستاد سے چھپ چھپ کر ایک ایک لقمہ توڑ کر کھانے کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ یار دوست ایک دوسرے سے ایسے محبت کریں کہ جیسے لیلیٰ مجنوں کی جوڑی۔

گرمیوں کی دوپہروں میں جب آم بھی پکنے لگیں، محلے کے ماموں کے آم کا پیڑ ہم جیسوں کا خوب ٹارگٹ بنے۔ کیا پتھر، کیا ٹوٹا چھتر اس پیڑ پر ایسے چلے کہ ایک ایک ’’امبی‘‘ جھولی میں آگرے۔ ماموں کی گالیاں اور کچے آم کھانے کا لطف بیان سے باہر۔

بارش میں گرائونڈ ایسا تالاب بنے کہ جیسے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا سوئمنگ پول۔ جون، جولائی شِکرِ دوپہرے کرکٹ کھیلنا عمران، میانداد کے ایکشن بنانا، عبدالقادر کی گگلی گھمانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل بنے۔

گرمیوں کی شاموں میں اسکول گرائونڈ میں ہاکی کھیلنا اور مخالف کے گھٹنے کو ہاکی سے سینکنا دل کا بوجھ کم کرے۔ گلی ڈنڈا، کانچ کی گولیاں (بنٹے) کھیلنا پارٹ ٹائم شغل۔

گویا زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں مایوسی چھانے لگے۔ صرف آگے بڑھنے کا جنون دل کو لگے۔ دوست بھی ایسے کہ امتحان آئے تو نقل کے نئے نئے گُر سکھائیں۔

پڑھاکو ایسے کہ بار بار رٹا لگائیں کہ کہیں زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ لمحوں میں دوستیاں دشمنی میں بدل جائیں، دشمنیاں دوستی میں۔ نئے نئے دوستوں کے گروپ مگر سب ایک ساتھ جڑے رہیں۔ کتنا خوبصورت بچپن تھا۔ لنڈے کے کپڑوں کے نئے نئے ڈیزائن پہن کے ایسے بابو لگیں کہ کوئی پہچان نہ پائے۔

امتحان کی تیاری ہو یا کھیل کا میدان، ایسی کیفیت جیسے دنیا کے سب سے عظیم لوگ ہم ہی ہیں۔ کوئی احساسِ کمتری نہیں، کوئی بڑی خواہشیں نہیں، والدین سے کوئی ایسا تقاضا نہیں کہ جن سے ان کی دل آزاری ہو۔ خوشیاں ہی خوشیاں، محبتیں ہی محبتیں، عزت و احترام، خواہشات سے پاک زندگی ہر طرف بکھری پڑی تھی۔

بس ایک بار زندگی میں احساس کمتری کا دامن چھوٹا کہ جب میری ایک خالہ مرحومہ جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، لاہور میں کسی سسرالی رشتے دار کے ہاں سالگرہ میں شرکت کے لئے آئیں اور بن بلائے مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئیں، میری والدہ مرحومہ نے بڑے پیار سے مجھے کپڑے پہنائے، بال سنوارے، اسکول کا کوٹ پہنایا، پالش سے بوٹ ایسے چمکائے کہ اس کا اکھڑا رنگ نظر نہ آئے مگر بوٹ کا کھلا منہ بند نہ ہونے پائے۔

سالگرہ میں زرق برق لباس پہنے مہمانوں کو میرے پائوں کا انگوٹھا بوٹ سے باہر نکل نکل منہ چڑائے۔ میں سہما سمٹا خالہ کے پہلو میں گم سم بیٹھا کہ ایک شوخ چنچل ساڑھی والی حسینہ میک اپ سے منہ سجائے میری خالہ کے پاس آئیں، خالہ نے کہا یہ میرا بھانجا ہے۔

بچپن میں ہر بچے کی طرح خوبصورت تو میں تھا ہی مگر خاتون مجھے پیار کرنے کے بجائے میرے کوٹ کا کالر پکڑ کر کہنے لگیں ’’ایہہ لنڈے دا اے‘‘۔ بس پھر کچھ نہ پوچھیں یہ میں یا میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ اس وقت دل پر کیا گزری۔

زندگی دھوپ چھائوں ہو گئی، مگر یہ لمحہ احساسِ کمتری کے بجائے میری طاقت بنتا گیا، اللہ نے میری والدہ کے صبر، والد کی انتھک محنت سے کایا ہی پلٹ دی، سب اُلٹ ہوگیا۔ آپ اس کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے اس کا کرم ہوگیا، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک خواب کے سوا کچھ نہیں، آگے دیکھتا ہوں تو یہ خواب ٹوٹتا نظر آتا ہے۔

آج دنیا ہی بدل گئی۔ ہر طرف احساسِ کمتری کے ڈیرے ہیں، مایوسی ہے، محبتیں نفرتوں میں بدل رہی ہیں، نہ وہ دوستیاں نہ محلے کے وہ چاچے مامے۔ میرا خوبصورت بچپن منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔

آج کے بچے احساسِ کمتری کا شکار، خواہشات کے نہ ختم ہونے والے تقاضے، ماحول ایسا کہ بیٹیوں کے گھر سے نکلنے پر بھی ڈر لگے۔ احساسِ کمتری، خواہشات، مایوسی کی شکار آج کی بیروزگار نوجوان نسل گھٹن زدہ ماحول میں خود کو مارنے پر تلی ہوئیس ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔

اس معاشرے میں خود کشی کا رجحان کیوں بڑھنے لگا ہے۔ عجیب ماحول ہے کہ بچے بچیاں جب اپنے مصنوعی خوابوں کو ٹوٹتا دیکھتے ہیں تو زندگی سے مایوس ہو کر خود کشی کو ہی کیوں اپنا آخری سہارا سمجھنے لگتے ہیں۔

گھریلو جھگڑوں کی بنیاد پر زندگی کا خاتمہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کوئی بھوک سے مر رہا ہے تو کوئی اپنی جائز خواہشیں پوری نہ ہونے پر زندگی کا خاتمہ کر رہا ہے۔ کسی کو پسند کی شادی نہ ہونے کا شکوہ ہے تو کوئی روزگار میسر نہ ہونے پر اہل خانہ کے طعنوں سے دلبرداشتہ زندگی سے مایوس ہوتا جاتا ہے۔

گھریلو جھگڑوں کی بنیاد پر خواتین میں خودکشی کے رجحان میں آئے دن اضافہ زیادہ تر مالی مشکلات کی بنیاد پر ہی ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

نوجوان نسل تاریک مستقبل کے خوف سے زندگی کی ڈور اپنے ہی ہاتھوں کاٹ رہی ہے۔ آج فرسٹریشن، ڈپریشن کے شکار نوجوانوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آخر ہم نے اس نسل کو دیا کیا ہے؟

کھوکھلے نعرے، جھوٹے دلاسے، کھیل کے اُجڑے میدان، مہنگی تعلیم، شفقتِ پدری سے محروم اُستاد، محبت سے عاری فیس بک دوستیاں، ماں کے ہاتھ سے بنے انڈے پراٹھے کے بجائے فاسٹ فوڈ کی شوقین یہ نسل نہ ٹھنڈے گرم موسم کو انجوائے کر سکتی ہے، نہ اسے مٹی کی خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔

زندگی میں آگے بڑھنے کا جنون تو ہر کسی کو ہے مگر جستجو نہیں، آخر اس جنون کی منزل کیا ہے؟ کسی کو معلوم نہیں اور جب کوئی راہ نہیں ملتی اور مایوسی حد سے بڑھنے لگتی ہے تو پھر زندگی کی ڈور ٹوٹنے لگتی ہے۔

تازہ ترین