• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کب باز آتا ہے۔ تاریخ کے فرعونی کرداروں کا منطقی انجام اور بھیانک خاتمہ دیکھ اور جان کر بھی اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتا۔ دل میں حلیمی پیدا کرتا ہے نہ نرمی۔ اپنے عہدے اور مرتبے کے ذریعے انسانیت کے لیے خیر کی علامت بننے اور معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے کے بجائے طاقت کے نشے میں سرشار غلطیوں پر غلطیاں دہرائے جاتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو پیروں تلے کچلتا ہوا بھول جاتا ہے کہ کسی وقت یہ سب مل کر طوفان کا روپ دھار سکتی ہیں۔ وقت گزرنے کا احساس بھی اُس کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں صوفیا، اولیا اور خوفِ خدا رکھنے والوں کے علاوہ ہر انسان میں ایک چھوٹا سا فرعونی پیکر ضرور سمایا ہوتا ہے جو وقت پڑنے پر اپنا اظہار کرتا اور وحشت پھیلاتا ہے۔ سارا فساد، ساری لڑائی اور رسہ کشی اسی فرعونی فکر کے باعث ہے۔ ہمارے صوفیا نے نفی ذات کو تصوف کا آغاز کہا کیونکہ جب تک انسان اپنے اوپر اختیار حاصل نہیں کر لیتا، اپنے غم و غصے، تکبر، حسد اور دیگر نفسانی برائیوں کو پسپا نہیں کرتا اور اپنے عمل کو سوچ کے تابع نہیں کرتا وہ کسی اور کے لیے مفید نہیں ہو سکتا، نہ ہی بلندیوں کی طرف سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت سب سے زیادہ ضرورت صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی اور جُڑت کی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر وقت ایک نفرت انگیز ماحول پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

جس میں ایک صوبے کا فرد دوسرے سے شکوہ کناں ہے۔ وہ لوگ جو بالکل کوئی کام نہیں کرتے وہ صرف تنقید کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کا خود کو ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک نیکی کرنے سے زیادہ برائی کی تشہیر کرنا اہم ہے۔ ایسی صورت میں کسی بھی قابل انسان کا وجود ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ ہر طبقہ فکر کے ماننے والوں نے سرکاری ملازموں، سیاستدانوں اور دیگر محکموں کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے جس سے مایوسی کی فضا پروان چڑھتی ہے۔ جس سے بات کریں وہ گلہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ اُس کی زندگی اُس کے آباؤ اجداد سے کہیں زیادہ بہتر اور آرام دہ ہوتی ہے۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر وقت گلہ کرتے ہیں وہ کسی وقت یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ عمل کے ذریعے اپنا حصہ ڈال کر معاشرتی اصلاح کریں۔

ظاہر ہے ہر فرد دیانتداری سے کام کرے اور ہر فرد کو وہ کام دیا جائے جس کا وہ اہل ہے تو یقیناً معاشرے میں خاطر خواہ بہتری آ سکتی ہے۔ قبل مسیح یونانی فلسفیوں نے یہ حقیقت بتا دی تھی کہ ہر انسان برابر نہیں ہوتا، خدا کی طرف سے کچھ لوگوں کو مخصوص صلاحیتیں ودیعت کی جاتی ہیں۔ ہر فرد فیصلہ سازی اور چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اِسی طرح فنون، ادب اور دیگر شعبوں کا تعلق ہے۔ ہر فرد کا جسم ویسا ہی عمل کرتا ہے جس کی کمانڈ اُس کا ذہن اُسے دیتا ہے۔ اِس لیے بہت طاقتور جسم والے لوگ بھی بزدل اور کم حوصلہ ہو سکتے ہیں جبکہ بظاہر کمزور نظر آنے والے لوگوں کا حوصلہ بہت پختہ ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑے فیصلے لینے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عملی کردار کا فیصلہ والدین نے اپنے سپرد لیے رکھا۔ وہ بچہ جسے طب سے کوئی دلچسپی نہیں ہم اُسے ہر حال میں ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں اور وہ بچہ جو ریت کا گھروندا بنانے سے ہچکچاتا ہے اُسے انجینئر بناکر عمارتوں کی تعمیر پر لگا دیتے ہیں۔ جب آپ کسی فرد کو ایسے فرائض تقویض کریں جو اُس کی دلچسپی اور رجحان کے مطابق ہوں تو نتیجہ سو فیصد مثبت آتا ہے کیونکہ وہ فرد اپنے کام کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ ایک خوشگوار عمل سمجھ کر سرانجام دیتا ہے۔ یہاں وہ مقررہ وقت کی پروا بھی نہیں کرتا کیونکہ اُس کے لیے کام کی انجام دہی اطمینانِ قلب کی مانند ہوتی ہے۔ ادب اور کلچر وہ پلیٹ فارم ہیں جس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

ہمارے ہاں 72سالوں سے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کا کوئی عمل شروع نہیں کیا گیا۔ لوگ ایک دوسرے صوبے میں ملازمت کے لیے جاتے ہیں لیکن آپس میں یگانگت کا ماحول پیدا نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کا لوگوں سے رابطہ ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہے تو صوبائی چپقلشوں کو کم کرکے ہم آہنگی کی فضا کو ترویج دینا ہوگا۔ لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں مگر دیگر صوبوں میں ہونے والے میلے ٹھیلوں میں شرکت نہیں کرتے۔ ضروری ہے کہ قومی سطح کے ثقافتی اور ادبی ادارے وفود کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ کسی بھی جگہ ہونے والے علاقائی میلوں میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شرکت کو یقینی بنائیں۔ شندور پولو فیسٹیول کی طرز کے جتنے بھی میلے ہیں اُن میں یہ ادارے لوگوں کو لے کر جائیں تاکہ دیگر صوبوں کے لوگ وہاں کے لوگوں سے بات چیت کریں اور اپنائیت کی طرف سفر شروع ہو۔ بہرحال ابھی تک سائنس اِس بات کا کھوج نہیں لگا سکی کہ وقت سے پہلے واقعات کے بارے میں انسانی ذہن کو کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ معلومات خواب کی صورت ہم تک کسی طرح پہنچتی ہیں۔ جن کو وقوع پذیر ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہوتا ہے۔

یقیناً تقدیر اسی کا نام ہے کچھ چیزیں لکھی ہوئی ہیں اور وہ ہمارے وجود کے عناصر سے تال میل رکھتی ہیں اِس لیے دوسروں کے رستے میں کانٹے بچھانے کی بجائے اپنے لیے کوشش کرنا چاہئے اور صالح عمل کی توفیق طلب کرنا چاہئے۔ یقیناً یہ بھی ایک نعمت ہے اگر حاصل ہو جائے تو۔ ورنہ احساسِ جرم تو کسی نہ کسی وقت انسان پر حملہ آور ہوکر رہتا ہے۔ وارث شاہ جنہیں دنیا سخن کا وارث کہتی ہے، نے ہیر کے رومانوی قصے میں آفاقی حقیقتیں اور اخلاقی قدریں بیان کرکے افراد کو انسان بننے کا گر سِکھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اَکڑ کر چلنے والا آخر بے توقیر ہو کر رخصت ہوتا ہے۔ عزت صرف اُسی کی ہوتی ہے جو دلوں کو جیتنے کا جتن کرتا ہے۔ زمین، مال اور وارثوں پر مان کرنے والے بے وارث کر دئیے جاتے ہیں اسلئے اُس حاکم سے ڈرنا چاہئے جو قہار بھی ہے اور جبار بھی۔ محبت کرنے والوں کیلئے وہ ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے اور اِس کے برعکس چلنے والوں کو عبرت کی علامت بنا دیتا ہے۔

وارثؔ مان نہ کر وارثاں دا

رب بے وارث کر ماردا ای

تازہ ترین