سید میر محمد معصوم شاہ بکھری سندھ کے نامور مورخ، فارسی کے صاحبِ دیوان شاعر، طبیب، کتبہ نویس اور شہنشاہ جلال الدین اکبر کے اُمرا میں سے ایک تھے۔وہ 7 رمضان المبارک 944ھ بمطابق 7 فروری 1538ء کوسندھ کے قدیم شہر بکھر (جسے اب پرانا سکھر کہتے ہیں) میں پیدا ہوئے۔ آپ کاپیدائشی نام محمد معصوم، عرف نظام الدین اور تخلص’’ نامی‘‘ تھا۔ آپ کے والد کا نام میر سید صفائی حسینی تھا۔ آپ کے اجداد کا تعلق ترمذ کے سادات خاندان سے تھا، جنہوں نے دوسے تین پشت تک قندھار میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
وہاں ایک ولی بابا شیر قلندر کے مقبرے کا انتظام آپ کے خاندان کے سپرد تھا۔ میر محمد معصوم کے والد سید صفائی حسینی، مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے سسر سلطان محمود خان کوکلتاش کی بکھر سرکار پر دورِ حکمرانی میں بکھر شہر میں تشریف لائے اورسلطان محمودکے اعزاز و اکرام کی وجہ سے یہیں مستقل رہائش اختیار کی۔ سید صفائی حسینی نے سہیون کے قریب ایک قصبے کھابڑوٹ کے سادات خاندان میں شادی کی جس میں سے آپ کو میر محمد معصوم اور دیگر دو فرزند بکھر میں پیدا ہوئے۔
سید صفائی حسینی ایک بلند مرتبہ عالم، فاضل اور صاحبِ کمال شخص تھے۔ بکھر کے شیخ الاسلام شاہ قطب الدین ہروی (متوفی 977ھ) کی وفات کے بعد سلطان محود خان کوکلتاش نے سید صفائی حسینی کے علم و کمال کی قدر کرتے ہوئے آپ کو بکھر کے شیخ الاسلام کے عہدۂ جلیلہ پر سرفراز کیا۔ سید صفائی حسینی نے اپنی زندگی نہایت عزت و احترام میں گزار کر ذو القعد 991ھ میں اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔
سید میر محمد معصوم نے سندھ کے مشہور عالم و فاضل قاضی دتہ سیہوانی اور نامور محدث شخ حمید بن قاضی عبد اللہ بن ابراہیم دربیلی سے تعلیم حاصل کی۔چوں کہ آپ کو شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا اس لیے عہدِ جوانی میں اکثر آپ کا وقت شکار میں گزرتا تھا۔
اچانک غربت نے آپ کے اطمینان و سکون کو ختم کر دیا اور پیدل گجرات کی جانب عازم سفرہوئے۔ گجرات میں شیخ اسحاق بکھری نے،جو آپ کے ہم مکتب اورہم وطن تھے، آپ کی ملاقات صاحبِ طبقات اکبری خواجہ نظام الدین احمد ہروی سے کرا دی۔ اتفاق سے اسی دوران طبقات اکبری کی تالیف ہو رہی تھی۔
خواجہ نظام الدین نے میر محمد معصوم کو اپنی صحبت میں لے لیا کیونکہ آپ فن تاریخ گوئی میں یگانۂ روزگار تھے۔ اسی بنا پر خواجہ نظام الدین نے طبقات اکبری کی تالیف میں آپ کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جس کا ذکر خواجہ نظام الدین احمد نے بھی اپنی کتاب میں میر محمد معصوم کی شرکت اور مصاحبت کا ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد آپ گجرات کے ایک امیر شہاب الدین خاں کی ملازمت میں آئے، یہاں صاحبِ منصب ہوئے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ شجاعت و مردانگی میں مشہور ہوئے اور شہنشاہ اکبر کی خدمت میں روشناسی کا اعزاز پایا۔ چالیسویں سال جلوسِ اکبری تک آپ ڈھائی سو کے منصب پر سرفراز ہوئے تو بتدریج شاہی قرب و اعتبار حاصل ہوتا رہا۔
میر محمد معصوم نے محمد مقیم اور تیمور بدخشی اور دیگر مغل اُمرا کے ساتھ آصف خان کی سربراہی میں ایدر کے راجا کو شکست دینے والے لشکر میں شامل رہے۔ عبد الرحیم خان خاناں کے ساتھ گجرات کی فتح تک تمام جنگی مہمات اور سندھ کی فتح میں بھی شریک رہے۔
وہ 1005ھ سے 1007ھ تک قندھار میں رہے۔ 1012ھ میں ایران کی سفارت پر مامور ہوئے۔ فراست و کارگزاری کی وجہ سے ایران کے بادشاہ ،شاہ عباس صفوی کی آپ پر عنایات ہوئیں۔ جب وہ ایران سے واپس آئے تو مغل ،بادشاہ نور الدین جہانگیر کی طرف سے امین الملک کا خطاب پا کروطن مالوف بکھر واپس آئے۔
بعض روایات کے مطابق امین الملک کا خطاب شہنشاہ اکبر نے آپ کو عطا کیا تھا۔ میر محمد معصوم ایک جامع صفات شخصیت تھے۔ آپ کو عمارت سازی کا بے حد شوق تھا۔ سکھر اور روہڑی میں بہت سی عمارات تعمیر کرائیں، مساجد اور مذہبی عمارتیں تعمیر کرانا ان کا مشغلہ تھا۔آپ کی پرانے سکھر میں بنوائی ہوئی عمارات میں عید گاہ، مینارہ معصوم شاہ اور آرامگاہ یا فیض محل زیادہ مشہور ہیں۔
تاریخ گوئی، کتبہ نویسی اور خوشخطی کے فن میں آپ مہارت رکھتے تھے۔ہندوستان سے تبریز و اصفہان تک تمام جگہ راستوں اور منزلوں پر آپ نے اپنے اشعار مسجدوں اور عمارات کے پتھروں پر کندہ کرائے۔ قلعہ آگرہ کے دروازے، فتح پور سیکری کی جامع مسجد کے کتبے آپ ہی کے خط میں ہیں۔
سندھ کی تاریخ پر مبنی کتاب تاریخ معصومی آپ کا سب بڑا علمی کارنامہ ہے جسے آپ نے فارسی زبان میں تحریر کیا۔ کتاب کی عبارت نہایت سلیس، شستہ اور مشکل استعاروں اور تشبیہات سے پاک ہے، اسی بنا پر یہ کتاب فارسی انشاء اور عبارت کے لحاظ سے دیگر کتبِ تاریخ سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو چچ نامہ کے بعد سندھ کی تاریخ کا اہم مآخذ مانا جاتا ہے۔
تاریخِ معصومی کو آپ نے سن 1009ھ میں تالیف کیا اور یہ عربوں کی فتح سندھ سے لے کر گیارہویں صدی عیسوی کے اوائل تک سندھ کی تاریخ کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ مذکوہ کتاب کا سندھی زبان میں ترجمہ مخدوم امیر احمد نے کیا ہے جو سندھی ادبی بورڈ جامشورو کی جانب سے 1953ء میں شائع کیا جا چکا ہے۔ یہ کتاب اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے جس کے مترجم اختر رضوی ہیں۔ اس کے علاوہ طب کے موضوع پر طبِ نامی اور مفردات معصومی فارسی زبان میں تحریر کیں۔
شاعری میں دیوانِ نامی اور چار مثنویاں معدن الافکار، حسن و ناز، اکبر نامہ اور پری صورت آپ کی علمی یادگار ہیں۔ میر محمد معصوم بکھری کی وفات بروز جمعہ 6 ذو الحج 1014ھ بمطابق 14 اپریل1606ء کو بکھر میں ہوئی۔ آپ کا مزار مینارۂ معصوم شاہ کے پہلو میں واقع اپنے والد سید صفائی حسینی کی قبر کے ساتھ بنا ہوا ہے۔